بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورونا وائرس کے مریض کی عیادت کرنے کا حکم


سوال

کرونا وائرس کے مریض کی عیادت کا کیا حکم ہے؟

جواب

احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کورونا وائرس کے مریض کی عیادت کرنا نہ صرف جائز، بلکہ باعث اجر و ثواب ہے، کورونا وائرس کے مریض کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا اور اس کی تیمار داری یا عیادت سے خود کو بیماری لگنے کا وہم رکھنا عقیدہ کی کمزوری اور فساد کی نشانی ہے، بیماری بذات خود ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیئت نہ ہو، اس لیے اگر مرض کے خوف سے عیادت، جو کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے، چھوڑ دیا جائے تو مریض کے لیے بیماری کی تکلیف دوگنی ہوجائے گی، اس لیے کورونا وائرس کے مریض کی عیادت کرنا دیگر مریضوں کی عیادت کرنے کی طرح باعث ثواب ہے، البتہ اگر کوئی شخص ایسے مریض کی عیادت کرتے ہوئے اسباب کے درجہ میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے مریض سے تھوڑا فاصلہ رکھ کر اور ماسک وغیرہ لگاکر بیٹھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی کورونا وائرس کے یقینی مریض سے ظاہری اسباب کے درجے میں احتیاط کرنا تو جائز ہے، لیکن اس کے لیے ایسی صورت اختیار کی جائے کہ بیمار کی دل آزاری نہ ہو  اور   یہ عقیدہ بھی  نہ ہو کہ ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے، اگر یہ نظریہ ہو کہ بیماری لازمی طور پر متعدی ہوتی ہے تو یہ ایمان کے لیے خطرناک ہے، احادیثِ مبارکہ میں بیماریوں کے لازمی اور بذاتہ متعدی ہونے کے جاہلی عقیدے کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ اور اگر ایسے مریض کی بیماری میں تیمار داری اور خدمت کا  کوئی انتطام نہ ہو تو اس کی خدمت میں لگنا ضروری اور باعث اجر وثواب ہے،  جیساکہ صحیح بخاری کی درج ذیل روایت سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ منورہ کی آب و ہوا میں وبائی مرض تھا، جس کی وجہ سے بہت سے مہاجر صحابہ بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی اس وبائی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے تو میں ان کی عیادت کرنے گئی اور میں نے ان سے پوچھا کہ ابا جان! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ اور اے بلال! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ بہرحال دیگر صحابہ کرام بھی ان مریضوں کی تیمار داری اور خیال داری اپنے ہی گھروں میں کرتے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے یہ وبا مدینہ منورہ  سے منتقل کرکے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مدینہ منورہ کی آب و ہوا کو پاک کردیا، امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الطب کے تحت یہ حدیثِ مبارک  "باب من دعا برفع الوباء والحمی" عنوان کے تحت ذکر کی ہے، یعنی" وبا اور بخار کے ختم ہونے کی دعا کرنے کا بیان"۔

"عن عائشة أنها قالت: لما قدم النبي ﷺ وعك أبوبکر وبلال قالت: فدخلت علیهما، فقلت: یا أبت كیف تجدك؟ ویا بلال كیف تجدك؟ قالت: وكان أبوبکر إذا أخذته الحمّی یقول:

كل امرء مصبح في أهله                   والموت أدنی من شراك نعله

وكان بلال إذا أقلع عنه یرفع عقیرته، فیقول:

ألالیت شعري هل أبیتنّ لیلة                بواد و حولي إذخر وجلیل

وهل أردن یومًا میاه مجنة                   وهل یبدون لي شامة و طفیل

قالت عائشة: فجئت رسول الله ﷺ فأخبرته، فقال: اللهم حبّب إلینا المدینة کحبّنا مکة أو أشدّ حبًّا، وصححها، وبارك لنا في صاعها و مدها، و انقل حمّاها فاجعلها بالجحفة".

(صحیح البخاري، كتاب الطب، باب من دعا برفع الوباء والحمی، (2/847) ط: قدیمي، کراچي)

"عن أبي سلمة عن أبي هریرة قال: قال النبي ﷺ: لا عدوی و لاصفر و لا هامة، فقال أعرابي: یارسول الله! فما بال الإبل تکون في الرمل، لکأنها الظباء، فیخالطها البعیر الأجرب فیجربها؟ فقال رسول الله ﷺ: فمن أعدی الأول؟

وعن أبي سلمة سمع أبا هریرة یقول: قال النبي ﷺ لایوردن ممرض علی مصحح. و أنکر أبوهریرة الحدیث الأول، قلنا: ألم تحدّث أنه لاعدوی؟ فرطن بالحبشیة، قال أبوسلمة: فمارأیته نسي حدیثًا غیره".

(صحیح البخاري، كتاب الطب، باب الهامة، (2/859) ط: قدیمي كراچي)

ترجمہ: ابو سلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیماریوں کے (بذاتہ) متعدی ہونے کی حقیقت نہیں ہے ۔۔۔ چناں چہ ایک اعرابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر اونٹوں کا کیا حال ہے کہ وہ ریت میں ایسے ہوتے ہیں گویا کہ (جلد کی ملائمت اور خوب صورتی میں) ہرن ہوں، پھر ان میں خارشی اونٹ ملتا ہے تو ان کو بھی خارشی بنادیتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (سب سے) پہلے (خارشی اونٹ) کو کس نے بیماری متعدی کی؟!!

اسی طرح بعض روایات میں وارد ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے ایک مجذوم (وبائی مریض) کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور اس کے تھوڑا سا ہچکچانے پر فرمایا کہ اللہ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارا ایک غلام مجذوم تھا (یعنی جزام کی بیماری میں مبتلا تھا) ، پس وہ میرے کھانے کے برتن میں ہی کھاتا تھا اور میرے پینے کے برتن میں ہی پیتا تھا اور میرے استعمال کے بستر پر سوجاتا تھا۔

وعن جابر أن النبي ﷺ أكل مع المجذوم وقال له: كل ثقة بالله و توكلاً علیه، وعن عائشة قالت: كان لنا مولى مجذوم، فكان یأكل في صحافي و یشرب في أقداحي و ینام علی فراشي.

(شرح النووي علی صحیح مسلم)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110200817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں