بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس طاعون اور مدینہ میں اس کا داخل ہونا


سوال

 کیا مدینہ میں طاعون داخل نہ ہو گا؟ اور کیا coronavirus بھی طاعون میں داخل ہے جس طاعون کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے؟

جواب

طاعون  کے مدینہ منورہ میں داخل نہ ہونے سے متعلق صحیح احادیث منقول ہیں ، چناچہ حدیثِ  مبارک  میں ہے :

صحيح البخاري (3/ 22):

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «على أنقاب المدينة ملائكة لايدخلها الطاعون، و لا الدجال»."
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ  ؓ  راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:  مدینہ کے راستوں یا اس کے دروازوں پر بطور نگہبان فرشتے متعین ہیں، نہ تو مدینہ میں طاعون کی بیماری داخل ہو گی،  نہ دجال داخل ہو گا۔  (بخاری ومسلم)

" طاعون" سے کبھی وبا مراد ہوتی ہے، لیکن  وبا کے علاوہ ایک خاص بیماری کو بھی  "طاعون" کہتے ہیں، گویا طاعون خاص ہے اور وبا عام ہے،  چناں چہ یہاں حدیث میں اسی خاص بیماری کے بارے  میں فرمایا کہ آں حضرت ﷺ  کی دعا کی برکت سے یہ بیماری مدینہ میں داخل نہیں ہو گی، گویا یہ  آں حضرت ﷺ  کا ایک صریح معجزہ ہے۔ 

لہذا مدینہ منورہ میں کسی وبائی مرض کا آجانا احادیثِ  مبارکہ کے خلاف نہیں ہے؛  کیوں کہ احادیث میں جہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مدینہ منورہ میں "طاعون" داخل نہیں ہوسکتا، وہ ایک خاص بیماری ہے، اس میں تمام وبائی امراض داخل نہیں ہیں، اس کی تائید  بخاری شریف کی درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں ایسے وبائی مرض ہونے کا ذکر ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی وفات ہورہی تھی ۔ ملاحظہ ہو:

صحيح البخاري (3 / 169):

"عن أبي الأسود، قال: أتيت المدينة وقد وقع بها مرض و هم يموتون موتًا ذريعًا، فجلست إلى عمر رضي الله عنه، فمرت جنازة، فأثني خيرًا، فقال عمر: وجبت، ثم مر بأخرى، فأثني خيرًا، فقال: وجبت، ثم مر بالثالثة، فأثني شرًّا، فقال: وجبت، فقلت: و ما وجبت يا أمير المؤمنين؟ قال: قلت كما قال النبي صلى الله عليه وسلم: «أيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة»، قلنا: و ثلاثة، قال: «وثلاثة» ، قلت: واثنان، قال: «واثنان» ، ثم لم نسأله عن الواحد".

ترجمہ :حضرت  ابوالاسود  سے روایت ہے کہ میں مدینہ آیا اور وہاں ایک بیماری پھیلی ہوئی تھی جس سے لوگ جلد مر جاتے تھے، پس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف کی، حضرت عمر ؓنے فرمایا: واجب ہوگئی، پھر ایک دوسرا جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی تو انہوں نے فرمایا: واجب ہوگئی، پھر تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: واجب ہوگئی، میں نے پوچھا! اے امیرالمومنین کیا واجب ہوگئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اسی طرح کہا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس مسلمان کی نیکی کی چار آدمی گواہی دے دیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے،ہم نے پوچھا اور تین میں بھی؟ تو انہوں نے فرمایا: تین میں بھی، میں نے پوچھا کیا دو میں بھی؟ انہوں نے کہا: اور دو میں بھی، پھر ہم نے ان سے ایک کے متعلق نہیں پوچھا۔

بعض محدثین فرماتے ہیں کہ  مدینہ میں وباء  کا داخل نہ ہونا  یہ  خاص  ہے اور اس کا تعلق  دجال کے ظاہر ہونے کے وقت  ہو گا۔

فتح الباري لابن حجر (10 / 190):

"و قد أجاب القرطبي في المفهم عن ذلك فقال: المعنى لايدخلها من الطاعون مثل الذي وقع في غيرها كطاعون عمواس و الجارف، و هذا الذي قاله يقتضي تسليم أنه دخلها في الجملة و ليس كذلك، فقد جزم ابن قتيبة في المعارف و تبعه جمع جمّ من آخرهم الشيخ محيي الدين النووي في الأذكار بأن الطاعون لم يدخل المدينة أصلًا و لا مكة أيضًا، لكن نقل جماعة أنه دخل مكة في الطاعون العام الذي كان في سنة تسع و أربعين و سبعمائة بخلاف المدينة، فلم يذكر أحد قطّ أنه وقع بها الطاعون أصلًا، و لعلّ القرطبي بنى على أنّ الطاعون أعمّ من الوباء أو أنه هو و أنه الذي ينشأ عن فساد الهواء فيقع به الموت الكثير و قد مضى في الجنائز من صحيح البخاري قول أبي الأسود قدمت المدينة و هم يموتون بها موتًا ذريعًا، فهذا وقع بالمدينة و هو وباء بلا شكّ، و لكن الشأن في تسميته طاعونًا، و الحق أنّ المراد بالطاعون في هذا الحديث المنفي دخوله المدينة الذي ينشأ عن طعن الجنّ فيهيج بذلك الطعن الدم في البدن فيقتل، فهذا لم يدخل المدينة قطّ، فلم يتضح جواب القرطبي."

کرونا وائرس وبا ہے جو  طاعون کے مفہوم میں داخل ہے، لیکن خاص طاعون نہیں ہے۔اللہ پاک مدینہ طیبہ کو اس وبا سے محفوظ رکھے!  لیکن اگر یہ وبا وہاں داخل ہوگئی تو حدیث شریف کے خلاف نہیں ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں