بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا ویکسین سے موت ہوجائے تو شہادت کا حکم


سوال

کیا کرونا ویکسین لگوانے سے جو آدمی فوت ہو جاۓ  وہ شہید ہے؟

جواب

قطع نظر اس بات کے کہ کرونا ویکسین پر دنیا کے مختلف طبقات کے مختلف لوگوں کو کیا کیا تحفظات ہیں اور وہ تحفظات کس حد تک قابلِ توجہ ہیں، کسی بھی علاج کے نتیجے میں  مریض کی موت ہوجانے سے مریض کو اخروی شہادت کا درجہ ملنے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ جس مریض کے علاج میں نا اہل ڈاکٹر یا نا اہل انتظامیہ شریک ہو یا اہل ڈاکٹر  یا انتظامیہ ہو، لیکن اس کی قصداً غلطی کی وجہ سے اس کی موت ہوئی ہو اور نا اہل ڈاکٹر یا انتظامیہ کی نااہلی  یا اہل ڈاکٹر یا انتظامیہ کی قصداً غلطی شرعی طور  پر ثابت بھی ہوجائے تو  ایسا مریض ظلماً مقتول ہونے کی وجہ سے اخروی  شہید  کہلائے گا۔

انتظامیہ سے مراد علاج  معالجے سے متعلق  انتظامات کے ذمہ دار ہیں، جس میں ملکی دوائیوں کے بننے اور غیر ملکی دوائیوں کے اسلامی معیار کے مطابق آڈٹ سے لے کر مریض تک پہنچنے تک کے مراحل سے متعلقہ لوگ شامل ہیں،  چاہے ان کا تعلق حکومتِ  وقت سے ہو، شعبۂ طب سے ہو یا اسلامی معیارات کے مطابق  جانچ پڑتال کرنے والے علماءِ کرام سے ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 252):

"(قوله: ونحوه) أي كالمجنون والصبي والمقتول ظلمًا إذا وجب بقتله مال."

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8 / 33):

"وفي الخلاصة الكحال: إذا صبّ الدواء في عين رجل فذهب ضوءه لم يضمن، كالختان إلا إذا غلط، فإن قال رجلان: إنه ليس بأهل، وقال رجلان: هو أهل لم يضمن، فإن كان في جانب الكحال واحد و في جانب الآخر اثنان ضمن."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 147):

"(قوله: وطبيب جاهل) بأن يسقيهم دواءً مهلكًا وإذا قوي عليهم لايقدر على إزالة ضرره، زيلعي."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6 / 2293):

" (وعن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم) وفي نسخة: عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم قال: (من تطبب) : بتشديد الموحدة الأولى أي تعاطى علم الطب وعالج مريضا (ولم يعلم منه طب) : أي معالجة صحيحة غالبة على الخطأ فأخطأ في طبه وأتلف شيئا من المريض (فهو ضامن) : قال بعض علمائنا من الشرح: لأنه تولد من فعله الهلاك وهو متعد فيه، إذ لا يعرف ذلك فتكون جنايته مضمونة على عاقلته. وقال ابن الملك قوله: لم يعلم منه طب أي لم يكن مشهورا به فمات المريض من فعله، فهو ضامن أي تضمن عاقلته الدية اتفاقا ولا قود عليه، لأنه لا يستبد بذلك دون إذن المريض فيكون حكمه حكم الخطأ. وقال الخطابي: لا أعلم خلافا في أن المعالج إذا تعدى فتلف المريض كان ضامنا. وجناية الطبيب عند عامة الفقهاء على العاقلة. (رواه أبو داود والنسائي) وكذا ابن ماجه."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں