بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورونا ویکسین لگوانے کا حکم


سوال

 ویکسین لگوانا کیسا ہے؟ کیوں کہ بہت سے مفاسد اس کے سننے میں آرہے ہیں ۔

جواب

بصورتِ  مسئولہ  موجودہ حالات میں کرونا وائرس کا جو  انجیکشن مرض سے  بچاؤ کے لیے بطور ویکسین  لگایا جارہا  ہے ، چوں کہ  یہ ویکسین  احتیاط کے طور پر مبینہ بیماری سے بچاؤ اور پیشگی علاج کے طور پر  لگائی  جارہی ہے ، یقینی بیماری  کا علاج مقصود نہیں ؛اس لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ  یہ مضر صحت نہیں اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے ، نیز  اس میں کوئی  حرام  یا ناپاک چیز  ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب نہ ہو تو اس کا لگانا شرعاً جائز ہے، لازم یا ضروری نہیں ہےاور کسی کو ویکسین لگانے پر مجبور کرنابھی  جائز نہیں  ہے۔  اور اگر حرام اجزاء یا ناپاک چیز ملی ہوئی  ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو  تو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لا يلزم منه تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي، وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل بل في القول بالإباحة التي هي الأصل". 

(کتاب الاشربۃ، ج:6، ص:459، ط:ایج ایم سعید)

وفیه أیضاً:

"اختلف في التداوي بالمحرم وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان وعليه الفتوى.

 (قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل". 

(کتاب الطہارۃ، مطلب في التداوي بالمحرم، ج:1، ص:210، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں