کرونا ویکسین لگوانا جائز ہے؟
موجودہ حالات میں کرونا وائرس کا جو انجیکشن مرض سے بچاؤ کے لیے بطور ویکسین لگایا جارہا ہے ، چوں کہ یہ ویکسین احتیاط کے طور پر مبینہ بیماری سے بچاؤ اور پیشگی علاج کے طور پر لگائی جارہی ہے ، یقینی بیماری کا علاج مقصود نہیں ؛اس لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ مضر صحت نہیں اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے ، نیز اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے، اور اگر حرام اجزاء یا ناپاک چیز ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو تو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
" فتاوی شامی" میں ہے:
"الْأَصْلُ فِي الْأَشْيَاءِ الْإِبَاحَةُ، وَأَنَّ فَرْضَ إضْرَارِهِ لِلْبَعْضِ لَا يَلْزَمُ مِنْهُ تَحْرِيمُهُ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ، فَإِنَّ الْعَسَلَ يَضُرُّ بِأَصْحَابِ الصَّفْرَاءِ الْغَالِبَةِ، وَرُبَّمَا أَمْرَضَهُمْ مَعَ أَنَّهُ شِفَاءٌ بِالنَّصِّ الْقَطْعِيِّ، وَلَيْسَ الِاحْتِيَاطُ فِي الِافْتِرَاءِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى بِإِثْبَاتِ الْحُرْمَةِ أَوْ الْكَرَاهَةِ اللَّذَيْنِ لَا بُدَّ لَهُمَا مِنْ دَلِيلٍ، بَلْ فِي الْقَوْلِ بِالْإِبَاحَةِ الَّتِي هِيَ الْأَصْلُ".
(6 / 459، کتاب الاشربہ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210200977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن