بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا ریلیف فنڈ میں زکاۃ کی رقم جمع کرانا


سوال

زکاۃ کےپیسے کرونا ریلیف فنڈ میں دیناجائز  ہے؟

جواب

زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے کسی مستحق مسلمان کو بلاعوض مالک بناکر رقم یا سامان دینا ضروری ہے،  زکاۃ کی رقم کو  فلاحی، رفاہی کاموں  میں خرچ کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوتی،  لہٰذا کرونا ریلیف فنڈ سے اگر   مسلمان غیر سید مستحقِ زکاۃ فرد کو زکاۃ کا مالک بناکر رقم دی جاتی ہو تو  اس میں زکاۃ کی رقم ادا کرنا درست ہوگا۔ 

اور اگر کرونا ریلیف فنڈ سے  مستحق، غیر مستحق ، مسلمان ،غیر مسلم کی تمییز  کیے بغیر  رقم دی جاتی ہو  یا اس سے ہسپتال، شفاخانے کے اخراجات اور دیگر رفاہی کام بھی کیے جاتے ہوں تو  اس میں  زکاۃ  کی رقم دینا درست نہیں ہوگا، لہذا جب تک کرونا ریلیف فنڈ  سے  زکاۃ کی مد اور اس کے مصارف کا مستقل شفاف نظام معلوم نہ ہو اس میں زکاۃ کی رقم نہ دی جائے، بلکہ زکاۃ کی رقم خود مستحق تلاش کرکےاسے  یا کسی مستند دینی ادارے کو  دی جائے۔

البتہ اس طرح کے فلاحی فنڈ میں نفلی صدقات اور عطیات سے تعاون کیا جاسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكًا) لا إباحةً كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره". (2 / 344،   345باب المصرف، ط؛ سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں