بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا میں مسجد جانا


سوال

 میں آج کل ایک پریشانی کا شکار ہوں، کورونا وائرس کی وجہ سے آج کل سب گھر والے انتہائی پریشانی کا شکار ہیں. اس پریشانی کو دماغ پر اتنا سوار کرلیا ہے کہ مجھے مسجد نماز پڑھنے نہیں جانے دے رہے ہیں. گھر والوں کو علماء اور بزرگانِ دین کے ملفوظ بھی سنا دیے، مگر اس کے باوجود بھی بضد ہیں کہ گھر پر نماز ادا کرو .خاص طور پر اہلیہ کہتی ہیں کہ بچوں کا خیال کریں، بوڑھے ماں باپ کا سوچیں. خدا نہ خواستہ ان کو  کچھ ہوگیا تو . زیادہ بحث کرتا ہوں تو اہلیہ کہتی ہیں کہ میں بچوں کو لے کر اپنی امی کے گھر چلی جاؤں گی. میں الحمدلللہ پانچ وقت نماز جماعت سے پڑھنے کا عادی ہوں، مگر گھر والوں کی اس ضد اور جذباتی باتوں کی وجہ سے گھر پر نماز اور تراویح ادا کر رہا ہوں . گھر پر نماز جماعت سے پڑھ لیتا ہوں، کبھی اہلیہ کے ساتھ  کبھی والد اور بھائی کے ساتھ. کل چپکے سے عصر کی نماز مسجد پڑھنے گیا تھا جس پر اہلیہ اور امی ناراض ہوگئیں.ویسے عام دنوں میں گھر والوں کی طرف سے مسجد جانے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے، صرف ان دنوں کورونا کی وجہ سے گھبراہٹ ہے . دل پر پتھر رکھ کر گھر پر نمازاور تراویح ادا کر رہا ہوں . گھر میں لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہتا ہوں. اس صورت حال میں کیا کروں؟  ہر طرح سے گھر والوں کو سمجھا کے دیکھ لیا. زبردست پریشانی کا شکار ہوں.میری مدد فرمائیے!

جواب

واضح رہے کہ اس دنیا میں اللہ نے بہت سی چیزوں کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، لیکن حقیقت میں سارے اسباب اپنا اثر دکھانے میں اللہ کے حکم کے پابند ہیں؛ لہذا نبی کریمﷺ نے دو مختلف موقعوں پر ایسا عمل کیا جس سے یہ دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریمﷺکے پاس ایک مجذوم (جذام کی بیماری والا شخص، جس بیماری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پھیلتی ہے)آیا تو آپﷺ نے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار آدمی سے یقینی طور پر بیماری لگ جانے کا اعتقاد درست نہیں ہے۔ دوسرے موقع پر ایک مجذوم آپﷺ سے بیعت ہونے کے لیے آیا تو نبی کریمﷺ نے ہاتھ ملائے بغیر ہی اسے بیعت کرلیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کے درجہ میں بیماری کے ظاہری اسباب سے بچناجائز ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ظاہری سبب کے طور پر پھیلنے والی بیماری کی جگہ یا شخص سے بچنا جائز ہے، تاہم یہ عقیدہ نہ ہو کہ ایسی جگہ میں جانے سے یا رہنے سے یا ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اللہ تعالی پر اعتماد  کرکے مسجد میں  فرض نماز پڑھنے جانا چاہیے، بیماری کا لگنا تو اللہ کے حکم سے ہے، البتہ دیگر احتیاطی تدابیر کا لحاظ رکھنا چاہیے، جب  کہ فی الوقت خصوصیت کے ساتھ مساجد میں احتیاطی تدابیر کا لحاظ بازاروں وغیرہ کی نسبت زیادہ رکھا جارہا ہے، نیز عام دنوں میں بھی مساجد میں صفائی ستھرائی کا زیادہ خیال رکھا جاتاہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4 / 1711):
" فر من المجذوم فرارك من الأسد " فإنه محمول على بيان الجواز أو لئلايقع شيء منه بخلق الله فينسب إلى الإعداء بالطبع ليقع في محذور اعتقاد التأثير لغير الله، وقد عمل النبي صلى الله عليه وسلم بالأمرين ليشير إلى الجوابين عن قضية الحديث فإنه جاءه مجذوم فأكل معه قائلاً: بسم الله ثقةً بالله وتوكلاً عليه، وجاءه مجذوم آخر ليبايعه فلم يمد إليه يده وقال: قدبايعت، فأولاً نظر إلى المسبب وثانيًا نظر إلى السبب في مقام الفرق وبين أن كلاً من المقامين حق، نعم الأفضل لمن غلب عليه التوكل أو وصل إلى مقام الجمع هو الأول والثاني لغيره". فقط والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144109200391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں