بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کی بجلی استعمال کرنے کا حکم


سوال

اگر گھر میں لائٹ کی چوری ہوتی ہو تو گھر میں رہنے والے شادی شدہ بچّے مجبوری میں اس لائٹ کا استعمال کر سکتے ہیں؟؟ اگر نہیں کر سکتے تو کیا کریں؟؟ کیا وہ ماں باپ کا گھر چھوڑ دیں؟

جواب عنایت فرماکر  مشکور فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ بجلی پوری قوم کی مشترکہ امانت ہے،اس لئے ایک فرد کےلیے غیرقانونی طور پر اس کا استعمال کرنا ناجائز ہے کہ اس سے دیگر لوگوں کے حقوق تلف ہوتے ہیں ،چنانچہ  حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی  تھانوی ۔رحمۃاللہ علیہ۔لکھتے ہیں:

"اسلام میں جس طرح شخصی املاک کی چوری ناجائز ہے، اسی طرح گورنمنٹ کی املاک بجلی وغیرہ کی چوری بھی ناجائز ہے ،اس لیے  جس قدر بجلی کی چوری کی جائے گی، اس کا ضمان واجب ہوگا"

(امدادالفتاوی،4/147،، سوال: 18، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)

اور جب چوری کی بجلی استعمال کرنا ناجائز ہے توپھر گھر کے باقی افراد کے لئے بھی اس کا استعمال ناجائز ہے۔

مجبوری کے عذر کے پیش نظر  بھی بجلی کی چوری جائز نہیں ہے؛کیونکہ اس سے دیگر لوگوں کے حقوق  وابستہ ہیں۔

والدین   کوادب  ملحوظ رکھتے ہوئے منع کریں اگر وہ نہ مانیں توخود استعمال نہ کریں ،اگر استعمال  سے  نہ بچ سکتے ہوں تواولاد بجلی کا بل ادا کرے۔یا پھر اپنی رہائش الگ کرلیں،اوراگر الگ رہائش ممکن  نہ ہو اور نہ ہی  بجلی کا بل اولاد  بھر سکتی ہو  تو محنت کرکے کم ازکم بل  کی ادائیگی کے لیے اولاد کو کمانا چاہیے۔

مستدرک للحاکم میں ہے:

"عن أبي هریرة عن النبي ﷺ أنه قال: من اشتریٰ سرقةً و هو یعلم أنه سرقة فقد شرک في عارها و إثمها".

(ج:3، ص:852، رقم الحدیث:2253، ط: نزار مصطفی الباز بیروت )

قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ."(سورتالاسراء23)

ترجمہ:اور تیرے رب نے حکم دیابجز ا س کے کسی کی عبادت مت کر اور اپنے  ماں باپ کےساتھ حسنِ سلوک کیاکرو۔

(از بیان القرآن)

 ارشاد نبوی ﷺ ہے:

"ألا لا طاعة لمخلوق ‌في ‌معصية ‌الخالق".

"خبردار،خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں".

(کنزالعمال ،3/216،الرقم،6226،ط،مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں