بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کی رقم لوٹنے کی صورت اور نمازوں کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی میں اکاؤنٹنٹ ہوں، کیشیئر کی جاب کرتا ہوں، اس کمپنی کے مالک  کے علم میں لائے بغیر میں نے ایک غبن کردیا  ، پیسے کو اپنے ذاتی  استعمال میں لاتا رہا،  تین سال تک دھوکہ دیا ، کوئی پوچھنے والانہیں تھا ، اب مجھے صحیح حساب وکتا ب کا نہیں پتہ کہ دولاکھ یا چار لاکھ کا غبن کیا ہے، اور اس غلطی کو سدھار نا چاہتاہوں مالک کے علم میں لائے بغیر ،کیا سیدھا  کمپنی کے  اکاؤنٹ میں رقم جمع کروادوں ؟ میں قیامت میں بری الذمہ ہو نا چاہتا ہوں، آپ کی رہنمائی درکار ہے ، کیا اس دوران میری پڑھی گئی نمازوں کی قضا میرے ذمے ہے؟

جواب

 اللہ تعالیٰ اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمادیں تو یہ سعادت کی بات ہے، لہذا اولاً صدقِ دل سے  اس گناہ سے سچی توبہ کرنی چاہیے، نیزسائل نے جتنی رقم ناحق طریقہ سے لی ہے ،  سائل پر لازم ہے کہ اگر پیسے حتمی طور پر یاد نہیں ہیں یعنی دولاکھ ہیں  یا چار   تو ایک محتاط اندازہ لگاکر اس سے کچھ زیادہ رقم اس کمپنی کو واپس لوٹادے،البتہ سائل مالک کو بتانا نہیں چاہتا تو   سائل کو چاہیے کہ وہ اکاؤنٹ میں منتقل کروادے ، اسی طرح اس دوران جتنی نمازیں پڑھی  ہیں  ان کی قضاکر نے کی ضرورت نہیں ہے ، البتہ اللہ تبارک وتعالی سے دعا خوب دعا مانگی جائے  کہ نماز وں کانور جو ضائع ہو گیا ہے،   اس کا حصول ہو  جائے ۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". 

"والأصل أن المستحق بجهة إذا وصل إلى المستحق بجهة أخرى اعتبر واصلاً بجهة مستحقة إن وصل إليه من المستحق عليه وإلا فلا.

(قوله: إن المستحق بجهة) كالرد للفساد هنا، فإنه مستحق للبائع على المشتري، ومثله رد المغصوب على المغصوب منه. (قوله:بجهة أخرى) كالهبة ونحوها.

(کتاب البیوع ، باب بیع الفاسد ، 99/92/5، سعید)  

الدر المختار میں  ہے:

"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».

(کتاب الصلاۃ، فروع فی النیۃ،1/ 438، سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503102468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں