بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کنسٹرکشن کے کام میں فیصد کے تناسب سے اجرت طے کرنا


سوال

ہم کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں تو کیا کسی کا گھر پرسنٹیج پر بنا سکتےہیں؟کیوں کہ گھر کا مالک چاہتا ہے کہ مٹیریل اس کی مرضی کا ہو،چاہے اس گھر کا جتنا خرچا آئے۔ ہم صرف سپروائزر ہوتے ہیں (یعنی مزدوروں کی نگرانی، مٹیریل کی تعیین کے بعد اسے مارکیٹ سے لانا، لگوانا، وغیرہ)۔ اگر ناجائز ہو اور اس کا کوئی حل ہو تو وہ بھی بتائیں؟

جواب

کنسٹرکشن کے  کام  میں  سپروائزنگ (نگرانی  / ٹھیکے داری) کرنا شرعاً  ’’اجارہ‘‘ ہے اور  عقدِ اجارہ صحیح  ہونے  کے لیے  فریقین (ٹھیکے پر دینے والے اور لینے والے) کے درمیان معاملہ اس قدر واضح ہونا لازم ہے کہ بعد میں نزاع (جھگڑے) کی نوبت نہ آئے  اور  اس وضاحت کے لیے اجرت کا مقرر ہونا بھی ضروری ہے۔ تاہم، اگر اجرت کو فیصد میں مقرر کیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں :

۱ )  کام کا مٹیریل مالک فراہم کرے گا اور  سپروائزر / ٹھیکے  دار اس کی نگرانی کرے گا، اس صورت میں اجرت فیصد میں طے کرنا جائز ہے، کیوں کہ اس میں نزاع نہیں ہے۔

۲) کام کا مٹیریل بھی سپر وائزر   ہی فراہم کرے گا۔ اس صورت میں اجرت فیصد میں طے کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس صورت میں سپر وائزر کی ترجیح مہنگے مٹیریل اور زیادہ مٹیریل لگانے کی ہوسکتی ہے، تاکہ اس کی اجرت زیادہ بنے جب کہ مالک (جو کہ عام طور پر مٹیریل کے فوائد و نقصانات وغیرہ سے ناواقف ہوتا ہے) کہہ سکتا ہے کہ فلاں کام سستے مٹیریل میں بھی ہوسکتا تھا۔ اس صورت میں اجرت کا رقم میں طے ہونا یا پھر مٹیریل کی نوعیت پہلے سے طے ہوجانا ضروری ہے؛ تاکہ معاملہ میں نزاع نہ ہو۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کے سوال کا تعلق چوں کہ پہلی صورت سے ہے، لہذا آپ کا فیصد میں اجرت طے کرنا جائز ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 193) :

"و الأصل في شرط العلم بالأجرة قول النبي صلى الله عليه وسلم «من استأجر أجيرا فليعلمه أجره» والعلم بالأجرة لا يحصل إلا بالإشارة والتعيين أو بالبيان."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 184) :

"و كذا بيان المعمول فيه في الأجير المشترك، إما بالإشارة و التعيين، أو ببيان الجنس و النوع والقدر و الصفة في ثوب القصارة و الخياطة و بيان الجنس والقدر في إجارة الراعي من الخيل أو الإبل أو البقر أو الغنم و عددها؛ لأنّ العمل يختلف باختلاف المعمول، وعلى هذا يخرج ما إذا استأجر حفارًا ليحفر له بئرًا أنه لا بد من بيان مكان الحفر و عمق البئر و عرضها؛ لأن عمل الحفر يختلف باختلاف عمق المحفور و عرضه و مكان الحفر من الصلابة و الرخاوة فيحتاج إلى البيان ليصير المعقود عليه معلومًا."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں