بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کنڈوم کا استعمال/بیوی کے ہاتھ سے مشت زنی کا حکم


سوال

 میرا ایک دوست شادی شدہ شخص ہے،اس کا کہنا ہےکہ میں بیوی کے ساتھ مشغول ہوتا ہوں، کپڑے بستر بچانے کے خیال سے کنڈوم استعمال کرتا ہوں شرمگاہ سے نکلنے والے پانی کی چکناہٹ سے کنڈوم چکنا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات بیوی کے ہاتھ میں ہی انزال ہو جاتا ہے۔تو اس پر مشت زنی کا حکم تو نہیں لگے گا؟گناہ تو نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ کثرت اولاد ترغیبات شریعہ میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ نکاح کے منجملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد بھی ہے اس لیئے بلاضرورت کوئی بھی ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو مانع حمل ہو ناپسندیدہ عمل ہے، تاہم اگر عورت کمزور ہو اور اس کی صحت حمل کی متحمل نہ ہو یا بچے ابھی چھوٹے ہوں تو عارضی طور پر کنڈوم یا کسی بھی مانع حمل تدبیر کے اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

نیز عام احوال میں بیوی سے  مشت زنی کرانا  مکروہ تنزیہی ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

الدر المختاروحاشية ابن عابدين  میں ہے: 

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج.... وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.

"بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا".

(باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج: 2، صفحہ: 399، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه".

(كتاب الحدود،فرع الاستمناء، ج: 4، صفحه: 27، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں