بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کنڈوم (Condom) استعمال کرنا کیسا ہے؟


سوال

کنڈوم (Condom) استعمال کرنا کیسا ہے شادی شدہ افراد کے لیے؟ اگرجائز ہے تو کن شرطوں پر جائز ہے؟ وضاحت کریں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے، اور  اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور کنڈوم کے استعمال کا مقصد مرد کے مادہ منویہ کو رحم میں پہنچنے سے بچانا ہوتا ہے، جو کہ عزل ( یعنی صحبت کے دوران منی کا اخراج بیوی کی شرم گاہ سے باہر کرنا)  کی ہی ایک جدید صورت ہے، اور  بلا عذر عزل کرنا ناپسندیدہ ہے،  البتہ اگر عذر ہو تو بیوی کی اجازت سے عزل کرنا بلاکراہت جائز ہوگا، اور بعض حالات میں بیوی کی اجازت کے بغیر بھی اس کی گنجائش ہے۔

چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں "عزل"  بلاکراہت جائز ہے:

1: عورت اتنی کمزور ہو  کہ حمل کا بوجھ   اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو  یا بچہ کی ولادت کے بعد   شدید کمزوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو  "عزل" جائز ہے۔

2:  دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

3: عورت بد اخلاق  اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہواور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بلاکراہت عزل جائز ہے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا مسدد: حدثنا يحيى بن سعيد، عن ابن جريج، عن عطاء، عن جابر قال:‌كنا ‌نعزل ‌على ‌عهد النبي صلى الله عليه وسلم.

حدثنا علي بن عبد الله: حدثنا سفيان: قال عمرو: أخبرني عطاء: سمع جابر رضي الله عنه قال: كنا نعزل والقرآن ينزل.

وعن عمرو: عن عطاء، عن جابر قال: ‌كنا ‌نعزل ‌على ‌عهد النبي صلى الله عليه وسلم والقرآن ينزل."

(صحيح البخاري ، كتاب النكاح، باب العزل،5 /1998،ط:دارابن كثير)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها.

وفي الرد’’(قوله قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اهـ".

(ردالمحتار علي الدر المختار، كتاب النكاح،باب نكاح الرقيق، 3 /175 - 176 ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں