ہماری کمپنی میں ملازمین کے تقرر کے وقت ان جملہ معاہدوں کے ساتھ ایک معاہدہ یہ بھی کیا جاتاہے کہ کوئی تین دن دس منٹ سے زیادہ ایک مہینہ کے اندر دیرسے آیا تو ایک دن کی تنخواہ کاٹ دی جائےگی ، سالانہ تین چھٹیاں ادارہ فراہم کرتاہے ،پہلے ان سے منہا کیا جاتاہے ،پھر زیادہ دن لیٹ آنے کی وجہ یہ چھٹیاں ختم ہوجاتی ہیں تو تنخواہ سے پیسے کاٹے جاتےہیں۔
کمپنی کا یہ طریقہ کار شرعی نقطہ نظر سے درست ہے؟اگر درست نہیں تو شرعی لحاظ سے اس سے کوئی بہتر طریقہ بتادیں۔
واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیر خاص کی ہوتی ہے؛ کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور اجیر خاص ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ) کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازمت کے اوقات میں حاضر نہیں رہا یا تاخیر سے آیا تو اس غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تنخواہ کا وہ مستحق نہیں ہوتا۔
صورت مسئولہ میں تین دن 10 منٹ تاخیر سے آنے پر استحقاقی چھٹی ختم کرنا تو درست ہے،اس لئے کہ استحقاقی چھٹی ایک تبرع ہے،لیکن استحقاقی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد تین دن تاخیر سے آنے پر ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تنخواہ کا وہ مستحق ہے ۔
تنخواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ ملازم کی ماہانہ تنخواہ کو اس کی ملازمت کے مکمل وقت (مثلًا صبح 8 سےشام 5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے، پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو اس کی تنخواہ میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کرلی جائے۔
فتح القدير میں ہے :
"أن الأجير الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."
(كتاب الإجارۃ ، باب إجارۃ العبد ج: 9 ص: 140 ط: دار الفکر)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".
(فصل فی التعزیر، ج:5، ص:41، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل."
(مطلب أنفق على معتدة الغير،156/3،ط:ايچ ايم سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601102050
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن