بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنیوں کی طرف سے دی جانے والی وارنٹی کا حکم


سوال

بعض کمپنیوں کی طرف سے وارنٹی دی جاتی ہے یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہےکہ بعض كمپنيوں كااپني پروڈكٹ  فروخت كرتےوقت  وارنٹی دینا یعنی اپنے پروڈکٹ میں کوئی خرابی نکلنے کی صورت میں اس کی  مرمت کرنے کی ذمہ داری ليناکمپنی کی طرف سے تبرع اوراحسان ہے ، اورتبرع كہتےہيں کسی معاوضے کے بغیرکسی کو کوئی چیز دے دینا،اس طور پر کہ دینے والے پر اس شے  کا دینا(عطیہ کرنا)لازم بھی نہ ہو۔لہٰذا کمپنیوں کی طرف سے دی جانے والی وارنٹی  شرعاً جائز ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"التبرع لغة: مأخوذ من برع الرجل وبرع بالضم أيضا براعة، أي: فاق أصحابه في العلم وغيره فهو بارع، وفعلت كذا متبرعا أي: متطوعا، وتبرع بالأمر: فعله غير طالب عوضا. 

وأما في الاصطلاح، فلم يضع الفقهاء تعريفا للتبرع، وإنما عرفوا أنواعه كالوصية والوقف والهبة وغيرها، وكل تعريف لنوع من هذه الأنواع يحدد ماهيته فقط، ومع هذا فإن معنى التبرع عند الفقهاء كما يؤخذ من تعريفهم لهذه الأنواع، لا يخرج عن كون التبرع بذل المكلف مالا أو منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالبا."

(حرف التاء، تبرع، 10/65، ط: دار السلاسل)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے: 

"(المادة ٥٧: لا يتم التبرع إلا بقبض)

لا يتم التبرع إلا بقبض هذه القاعدة مأخوذة من الحديث الشريف القائل «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» على أنه لو كانت الهبة تتم بدون القبض لأصبح الواهب حينئذ مجبرا على أداء شيء ليس بمجبر على أدائه، وذلك مخالف لروح التبرع فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ١ / ٥٧، ط: دار الجيل )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101878

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں