بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی والوں کا ایڈوانس رقم کے بدلے سہولیات دینا


سوال

ایپل (apple) کمپنی کی طرف سے ڈیلر شپ دی جاتی ہے،جس کےاصول  درج ذیل  ہیں:

1۔پہلے سے دوکروڑ  کے لگ بھگ مال آپ ان  سے لے رہے ہوں۔

2۔ایک کروڑ مزید ایڈوانس جمع کرانے پڑیں گے۔

اس پر ان کی طرف سے مندرجہ ذیل منافع  ملتے ہیں:

1۔ایپل کمپنی کا کوئی بھی پراڈکٹ خریدوگے تو25 فیصد کم قیمت پر وہ چیز آپ کو ملے گی۔

2۔اس ڈیلر شپ کی وجہ سے ایپل کمپنی 30سے 35 لاکھ کا مال ادھار پر دیتئ ہے،جسے آپ بیچ کر اصل پیسہ ایپل والوں کو واپس کردیں گے اور نفع خود رکھیں گے۔

3۔سال میں ایک بار بطورِگفٹ کے 10لاکھ انعام دیتے ہیں اور شروع میں ڈیلر شپ لینے پربطور انعام کے 3عدد موبائل بھی دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ تین منافع ڈیلر شپ کی مد میں ایپل کمپنی سے حاصل کرنا جائز ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ ایڈوانس رقم قرض ہوتا ہےاور  قرض کے بدلے کسی  قسم کا نفع حاصل کرنا سود ہے،لہذا صورتِ مسئولہ  میں  ایپل کمپنی والوں کا ایک کروڑ ایڈوانس کے بدلےخریدار کومذکورہ مراعات دینا شرعاً جائز نہیں،البتہ اگر کمپنی والے یہ مراعات    ایڈوانس کے بدلے   نہیں، بلکہ محض  تبرع کے طور پر  دیتے ہوں تو پھر یہ معاملہ شرعاً درست ہے۔ان مراعات کا ایڈوانس کے بدلے ہونے یا نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ کمپنی یہ مراعات ان لوگوں کو بھی فراہم کرےجو یہ رقم بطورِایڈوانس جمع نہ کرائیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن...(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني.قلت: وهذا هو الموافق لما سيذكره المصنف في أول كتاب الرهن وقال في المنح هناك، وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي، وكان من كبار علماء سمرقند إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم.قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطا صار قرضا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربا لا يظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح.قلت: وما في الجواهر يفيد توفيقا آخر بحمل ما في المعتبرات على غير المشروط، وما مر على المشروط، وهو أولى من إبقاء التنافي. ويؤيده ما ذكروه فيما لو أهدى المستقرض للمقرض إن كانت بشرط كره وإلا "

(کتاب البیوع،باب المرابحۃ والتولیۃ،فصل فی القرض166/5ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں