بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی سے غلط بیانی سے زیادہ رقم حاصل کرنے کا حکم


سوال

مسئلہ تجارتی عمل سے متعلق ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ چین میں دو طرح کا مال تیار ہوتا ہے،ایک فریش مال یعنی نیا مال اور دوسرا کچرا مال،کچرا مال سے مراد یہ ہے کہ کوئی تاجر  چینی کمپنی کو کسی مال کا آرڈر دیتاہے،لیکن بعد میں وہ مال  پسند نہ آنے کی بنا پر  تاجر وہ مال چھوڑ دیتا ہے،پھر کمپنی والے وہ مال کسی اور تاجر کو بیچ دیتے ہیں،وہاں کمپنی کا ضابطہ یہ ہے کہ جو تاجر کمپنی سے فریش مال خریدتا ہے کمپنی کی جانب سے اسے دس  لاکھ روپے انعام میں ملتے ہیں،اور اگر کوئی کچرا مال خریدتا ہے تو اسے ایک لاکھ روپے انعام میں ملتے ہیں ،اب  صورتِ  حال یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان  کے تاجر وہاں جاکر کمپنی سے کچرا مال خریدتے ہیں  اور قصداً اس مال کو فریش مال کے حساب میں لکھواتے ہیں اور تقریباً نوے فیصد تاجر یہ کام کرتے ہیں۔

نیز تاجر کو آگے کمیشن  لینے والے کو بھی پیسے دینے ہوتے ہیں اور آمد ورفت کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے ،اگر وہ انعام میں دس لاکھ لے لیتا ہے تو یہ سارے اخراجات ان دس لاکھ میں سے ادا کردیتا ہے ،اور کوئی نقصان نہیں ہوتا،لیکن اگر تاجر دس لاکھ نہ لے بلکہ کچرا مال کے ایک لاکھ روپے ہی لے تو پھر مذکورہ اخراجات کے بعد اس کے پاس بہت کم پیسے بچتے ہیں۔

اب کیا مذکورہ تفصیل کے بعد اس طرح انعام وصول کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں تمام معاملات میں  سچائی اور ایمانداری اختیار کرنے اور غلط بیانی اور جھوٹ سے بچنے کی نہایت  تاکید کی گئی ہے، اور  کسی بھی کام میں جھوٹ اور غلط بیانی کو سخت ناپسند کیا  گیاہے۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں   کچرامال کی جگہ   فریش مال لکھوا  کر کمپنی سے  ایک کے بجاۓ دس لاکھ روپے وصول کرنا  ،جھوٹ،دھوکہ دہی اور غلط بیانی کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، جو زائد رقم لی ہے وہ حرام ہے، اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن أبي عمرة، أنه سمع زيد بن خالد الجهني، يحدث أن رجلا، من المسلمين توفي بخيبر وأنه ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم أمره فقال: " صلوا على صاحبكم، فتغيرت وجوه القوم لذلك، فلما رأى ذلك قال: إنه غل في سبيل الله ففتشنا متاعه فوجدنا خرزا من ‌خرز ‌اليهود ما يساوي درهمين."

(كتاب السير،ما ذكر في الغلول،489/18، الرقم:35773،ط:دار كنوز)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ص: 255، ط: قديمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة(عن النبي صلي الله عليه وسلم قاك علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي...ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه(حتي تؤدي)... أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(باب الغصب والعارية،الفصل الثاني،119,120/6،ط:مكتبه إمداديه،ملتان)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد ‌بغير ‌سبب شرعي."

(كتاب الحدود،‌الباب السابع في حد القذف والتعزير،فصل في التعزير،167/2،ط:رشیدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) الرضا لقول الله تعالى: {إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29] عقيب قوله عز اسمه {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل} [النساء: 29] وقال - عليه الصلاة والسلام -: «‌لا ‌يحل ‌مال امرئ مسلم إلا بطيب من نفسه»."

(كتاب البيوع،فصل في شرائط الصحة في البيوع،176/5،ط:دار الكتب العلمية)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك ‌الخبيث سبيله ‌التصدق ‌به."

(كتاب الغصب،61/3،مطبعة الحلبي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں