بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی میں بنی ہوئی مسجد کی جگہ کو تبدیل کرنا


سوال

 کمپنی میں مسجد بنی ہے تقریباً 21 سال سے،  اب کمپنی والے مسجد کے لیے دوسری جگہ وقف کرکے اس جگہ (مسجد والی) پر لو گوں کے کام کےلیے مشینری لگانا چاہتے ہیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟ جب کہ مسجد قابل تعمیر ہے.

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر کمپنی میں بنی ہوئی مذکورہ مسجد  کی زمین  شخصی ملکیت  ہو اور  باقاعدہ  اس کو الگ کرکے مسجد کے لیے وقف نہ کیا ہو، بلکہ صرف ایک جگہ کمپنی میں نماز کے لیے مختص کی تھی  تو شرعاً یہ ”مصلیٰ“ (نماز پڑھنے کی جگہ ہے)،  شرعی مسجد نہیں ہے، اس لیے اس میں مالک کے لیے مالکانہ تصرف جائز ہے۔

اور اگر مذکورہ جگہ کو مالکان نے  باقاعدہ الگ کرکے مسجد کے لیے وقف کردیا تھا اور اس میں نمازیں بھی ہوتی رہیں تو  یہ وقف درست ہوگیا اور اب یہ چوں کہ باقاعدہ مسجد ہے،  اس لیے اب اس میں کسی قسم کے مالکانہ تصرف جائز نہیں ہوں گے، اور اس صورت میں یہ جگہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولايباع ولايوهب ولايورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية". (2 / 350، کتاب الوقف، رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله: جعلته مسجدًا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه).

(قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لاينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدا، فإنه لاينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لايحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدًا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لايصير مسجدًا بلا حكم وهو بعيد، كذا في الفتح ملخصًا. ولقائل أن يقول: إذا قال: جعلته مسجدًا فالعرف قاض، وماض بزواله عن ملكه أيضًا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لايتردد فيه نهر. 

وفي الدر المنتقى: وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف، وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ. قلت: يلزم على هذا أن يكتفى فيه بالقول عنده، وهو خلاف صريح كلامهم، تأمل".  (4/ 355، کتاب الوقف، ط: سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں