آج کل کی مہنگائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری کمپنی میں ہمیں کچھ ماہ بعد سستا بازار کے نام سے ایک پیکج ملتا ہے، اُس میں ہم میں سے شادی شدہ حضرات 15 ہزار تک کی مالیت کا سامان (اشیائے خورد و نوش) کچھ مخصوص دکانوں سے خرید کر استعمال کر سکتے ہیں اور اپنے تصدیقی کاغذات جمع کروانے کے بعد ہمیں 30 فیصد پیسے واپس دے دئیے جاتے ہیں، یا ہمارے اکاؤنٹ میں موصول ہو جاتے ہیں۔ اُن مخصوص دکانوں پر اشیاء کی قیمت کو بھی اچھی طرح مد نظر رکھا جاتا ہے تا کہ اس وجہ سے کوئی دکان دار مہنگی يا غیر معیاری چیز نہ بیچے ۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک بندہ اگر اس سستا بازار کے پیکج سے سامان لینے کا اہل تو ہے لیکن وہ خود سامان لینا نہیں چاہتا تو کیا وہ اپنے کسی ایسے دوست کو یہ پیکج مہیا کر سکتا ہے جو پہلے سے کمپنی کا یہ پیکج استعمال کر چکا ہے، اور اگر وہ یہ پیکج مہیا کر دیتا ہے تو بدلے میں 30 فیصد والی رقم بھی ساری اسی دوست کو دے گا یا اُس میں سے کچھ رقم اپنے پاس رکھ سکتا ہے یا پہلے سے اس سلسلے میں کچھ طے کر سکتا ہے؟نیز کیا اس پیکج میں سامان خرید کر استعمال کرنابھی ضروری ہے؟ یا وہ سامان خرید کر بیچ سکتا ہے؟
صورت مسئولہ میں اگر کمپنی کی جانب سے سستابازار پیکج کے حوالہ سے یہ قانون ہو کہ کوئی ملازم اُس پیکج کو استعمال کرنے کی سہولت کسی دوسرے کو نہیں دے سکتا، یا یہ قانون ہو کہ کوئی ملازم اِس پیکج کو براہ راست دو دفعہ استعمال نہیں کرسکتا، تو اِس صورت میں سائل کے لیےاپنا یہ پیکج مذکورہ دوست کو دینا کہ وہ براہ راست اِس سہولت کو استعمال کرے،درست نہیں ہے، بصورتِ دیگر یعنی اگر ایسا کوئی قانون اور اصول نہ ہوتو سائل کے لیے دوست کو پیکج استعمال کرنے کی سہولت دینا درست ہے۔
اور اگر سائل کمپنی کی اجازت سےپیکج کی سہولت دوست وغیرہ کو دے دے اور وہ براہ براست اُس کو استعمال کرے توکمپنی کی جانب سے اُس پر 30 فیصد کے حساب سے ملنے والی سہولت کا مستحق بھی دوست ہوگا، کیوں کہ کمپنی کی جانب مذکورہ رقم پیکج استعمال کرنے والے کو دی جارہی ہے، لہذا دوست پیکج براہ راست استعمال کرنے کی صورت میں اس رقم کا مستحق ہوگا۔اوراگر سائل ازخود پیکج استعمال کرکے سامان کی خریداری کرلے بعدازاں وہ سامان دوست کو دے تو اُسے اختیار ہے کہ چاہے تو بعینہ مذکورہ اشیاء کی قیمتِ خرید (15000ر وپے) اُس سے لے لے، یا قیمت میں کچھ کمی (ڈسکاؤنٹ) کرنا چاہے وہ بھی کرسکتا ہے،البتہ اگر دوست نے سائل سے مذکورہ اشیاء خریدیں اور یہ معاملہ کرتے ہوئے خریدار دوست نےیہ شرط لگائی کہ کمپنی کی طرف سے ملنے والی مکمل 30 فیصد رقم یا اُس کا کچھ حصہ وہ لے گا، تو اِس طرح خریدو فروخت کا مشروط معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾."(سورة المائدة،آيت:1)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! عہد کو پورا کرو۔‘‘ (ازبیان القران،جلداول، صفحہ444، ط:مکتبہ رحمانیہ)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"قوله تعالى:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ}روى عن ابن عباس ومجاهد ومطرف والربيع والضحاك والسدي وابن جريج والثوري قالوا: العقود في هذا الموضع أراد بها العهود."
(سورة المائدة، ج:2، ص:368، ط:دارالكتب العلمية)
البحرالرائق میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، ج:5، ص:44، ط:دار الكتاب الإسلامي)
مجلۃ الأحکام العدلیۃ میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال."
(الكتاب العاشر: الشركات، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول: في بيان بعض قواعد أحكام الأملاك، ج:1، ص:230، ط:نور محمد)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما).
وفي الرد: (قوله لا يقتضيه العقد ولا يلائمه) قال في البحر. معنى كون الشرط يقتضيه العقد أن يجب بالعقد من غير شرط، ومعنى كونه ملائما أن يؤكد موجب العقد، وكذا في الذخيرة. وفي السراج الوهاج: أن يكون راجعا إلى صفة الثمن أو المبيع كاشتراط الخبز والطبخ والكتابة. اهـ ما في البحر."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:85، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601102336
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن