بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ملازمین سے ضبط شدہ مال دیگر افراد کےلیے استعمال کرنے کا حکم


سوال

میں قطر میں ایک کمپنی میں سیکورٹی جاب کرتا ہوں، میری ڈیوٹی ایک لیبر کیمپ میں ہے،لیبر کیمپ اور بلدیہ قوانین کہ مطابق کیمپ کہ اندر کوکنگ ممنوع ہے،لیکن لوگ غیر قانونی طریقے یا چوری چھپے سے کھانے بنانے کا سامان اندر لے جاتے ہیں جو بعد میں تفتیش روم یا سیکورٹی چیکنگ کہ دوران ضبط کر لیا جاتا ہے،بعد ازاں سارا سامان جمع کر کے کیمپ انچارج کے سٹور میں رکھ دیا جاتا ہے،جو بعد میں سیکورٹی مینجر کےحکم سے سب گارڈز میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جس میں سے مجھے بھی ملتا ہے،میرا سوال یہ ہے کہ اس سامان کے استعمال کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا میرے لیے یہ سامان حلال ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپنی کے اصول کی خلاف ورزی کرنے پر لوگوں سےان کی رضامندی کے بغیر مال ضبط کرنا شرعاًجائز نہیں ہے،وہ مال انہی افراد کی ملکیت ہےجن سے وہ مال ضبط کیاگیااوران کو واپس کرنالازم ہے،کمپنی کو چاہیے کہ اس کی روک تھام کے لیے کوئی مناسب تدبیر اختیار کرے،مال ضبط کرکےتعزیربالمال کا ارتکاب نہ کرے،نیزیہ مال دوسرےافراد کےلیےاستعمال کرنا شرعاًجائز نہیں ہے،لہذاسائل کےلیےاس سامان کا استعمال کرناحلال نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان، ثنا حسن بن هارون بن سليمان، ثنا عبد الأعلى بن حماد، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

( السنن الكبرى للبيهقي، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جداراً، ج: 6، صفحہ: 166،ط:  دار الكتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

( کتاب الحدود، باب التعزیر،61/4،سعید)

المغنی لابن قدامہ میں ہے:

"والتعزير ‌يكون ‌بالضرب والحبس والتوبيخ. ولا يجوز قطع شىء منه، ولا جرحه، ولا أخذ ماله؛ لأن الشرع لم يرد بشيء من ذلك عن أحد يقتدى به، ولأن الواجب أدب، والتأديب لا يكون بالإتلاف."

(كتاب الاشربۃ،12/526،ط:دارعالم الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں