بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کی طرف سے آمدورفت پر ملنے والی الاؤنس رقم کا حکم


سوال

ایک شخص دوسرے ملک میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہے جب اس نے کام کرنا شروع کیا تو اس سے معاہدہ ہوا تھا کہ ہر دو سال کے بعد آپ کو اپنے ملک جانے کے لیئے ٹکٹ کمپنی دے گی، وہاں کا رواج ، عرف اور ترتیب یہ ہے کہ جو شخص اپنے ملک نہیں جاتا تو کمپنی ٹکٹ کے پیسے اسے دیتی ہے ، اس شخص کی ذمہ داریوں میں دیگر کاموں کے ساتھ  ساتھ  مالی معاملات دیکھنا بھی ہے یعنی کمپنی کے مالی معاملات لین دین سب یہ شخص ہی کرتا ہے اور حساب کمپنی کے ذمہ داروں کو دکھا دیتا ہے، کیونکہ وہ کمپنی میں بہت کم آتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ شخص کمپنی میں رہتے ہوئے دو سال کے بعد اپنے ملک نہیں جاتا اور کمپنی کی رقم میں سے ٹکٹ کے پیسے لے لیتا ہے اور حساب میں شامل کر دیتا ہے، تو آیا اس شخص کے لیے ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز اور اس پر اسے گناہ ہو گا یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب  مذکورہ کمپنی  کی طرف سے اپنے ملازمین کے لیے ہر دوسال پر آمد و رفت کے نام پر ٹکٹ کے  لیے متعیّن رقم (الاؤنس) جاری ہوتی ہے، اور یہ رقم کمپنی کی طرف سے باقاعدہ آمد  و رفت  کے  ساتھ مشروط بھی  نہیں  ہے(جیسے کہ سوال سے بھی بات ظاہر ہورہی ہے) تو ایسی صورت میں سائل کے  لیے کمپنی کے کھاتے میں سے مذکورہ رقم(یعنی الاؤنس) لینا جائز ہے، تاہم کمپنی کے ذمہ دار کو بتلا کرلے؛ تاکہ کسی قسم کا مغالطہ اور بدگمانی پیدا نہ ہو، لیکن    اگر مذکورہ  رقم کمپنی کی طرف سے باقاعدہ آمدورفت کے ساتھ  مشروط ہے، اور  کمپنی اسی آمد ورفت کا کرایہ دیتا ہے (یعنی اگرکمپنی والوں کو معلوم ہوجائے کہ ملازم آمدورفت  نہیں کرتا تو اُسے یہ الاؤنس نہیں دیا جاتا) تو پھر بغیر سفر کے  آمدورفت کے نام پر ملنے والا کرایہ  کا حق دار نہیں ہوگا، اگر لےگا تو کمپنی کو واپس کرنا لازم ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"و عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "«ألا لاتظلموا، ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه». رواه البيهقي في "شعب الإيمان"، و الدارقطني في "المجتبى."

(" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، و أن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه ("لايحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى ". 

(باب الغصب والعاریة، ج:5، ص:1974، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100573

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں