بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے شیئرز میں زکاۃ کا حکم


سوال

کیا کسی کمپنی کے شیئر کی قیمت میں اس کی زمین ،مشینری اور را مٹیریل کی قیمت شامل ہوتی ہے ؟اور شیئرز کی کس ویلیو پر زکوٰۃ فرض ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شیئرز اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے ، بلکہ اس کی پشت میں جو املاک اور اثاثے ہیں وہ اصل چیز ہے،لہذا شیئرز کمپنی کے اثاثوں(زمین ،مشینری اور رامیٹیریل وغیرہ)میں شرکت کو کہتے ہیں،  اگر تجارت کی نیت سے شئیرز خریدے ہیں یعنی شیئرز کی خرید وفروخت مقصود ہےتو شیئرز کی کل قیمت پر زکاۃ واجب ہوگی،اوراگر تجارت کی نیت سے نہیں خریدے ہیں تو صرف اس مقدار پر زکاۃ واجب ہوگی جو تجارت میں لگی ہوئی ہے،کارخانہ کی مشینری اور مکان پر جو رقم خرچ ہوئی ہے اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، تاہم شیئرز کی زکاۃ موجودہ (مارکیٹ) قیمت کے اعتبار سے ادا کی جائے گی ، مثلاً خریدتے وقت شیئرز کی قیمت سو(100) روپے تھی اور جب سال پورا ہوا تو اس وقت شیئرز کی قیمت دوسو (200) روپے ہوگئی تو فی شیئرز میں دوسو(200) روپے کے حساب سے ڈھائی فی صد زکاۃ دی جائے گی۔ 

بدائع الصنائع میں ہے۔

"عند أبي حنيفة في الزيادة والنقصان جميعا يؤدي ‌قيمتها يوم الحول."

(کتاب الزکوۃ،فصل صفة الواجب فی اموال التجارۃ،ج2،ص،21،ط،دارالکتب العلمیة)

فتح القدیر میں ہے:

"الزكاة واجبة ‌في ‌عروض ‌التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق أو الذهب) لقوله - عليه الصلاة والسلام - فيها «يقومها فيؤدي من كل مائتي درهم خمسة دراهم»."

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب زكاة المال ‌‌، ‌‌فصل في العروض، ج: 2، ص:218، ط:دار الفكر)

وفيه ايضاً:

"(وليس ‌في ‌دور ‌السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة) لأنها مشغولة بالحاجة الأصلية."

(‌‌كتاب الزكاة، ج: 2، ص:162، ط:دار الفكر)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض، الفصل الثاني في العروض، ج:1، ص:179، ط:دار الفكر)

وفيه ايضاً:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس ‌في ‌دور ‌السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج:1، ص:172، ط:دار الفكر)

وفيه ايضاً:

"وإن أدى القيمة تعتبر ‌قيمتها يوم الوجوب."

(کتاب الزکوۃ،الباب الثالث،مسائل شتی،ج،1،ص،180،ط،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے۔

"وتعتبر القيمة ‌يوم ‌الوجوب."

(کتاب الزکوۃ،باب زکوۃ الغنم،ج،2،ص۔286،ط،سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں