بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ملازم کے لیے کمپنی کا دوسرا کام ٹھیکہ پر لینے کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی میں  بطورِ ملازم فکس تنخواہ پر کام کرتا ہوں ،میری کمپنی کو ایک پراجیکٹ کے لئے کسی ٹھیکہ دار کی ضرورت ہے ، کیا میں خود ہی کسی دوست کے ساتھ مل کر اپنی کمپنی سے ٹھیکے پر کام لے سکتا ہوں ؟

جواب

واضح رہے کہ کمپنی کے ملازمین کی حیثیت "اجیر خاص" کی ہوتی ہے، وہ  کمپنی میں ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے کی صورت میں  اجرت (تن خواہ)  کا مستحق ہوتے  ہیں ، اور اس ملازمت کے اوقات میں دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتے،  البتہ ملازمت کے مقررہ اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں اگر کوئی اپنا کام کرتا ہے  تو  اگر اس کے اس دوسرے کام کرنے کی وجہ سے  کمپنی میں ان کے کام پر اثر پڑتا ہو تو درست نہیں ہوگا، یا اگر کمپنی نے اپنی رازداری وغیرہ کی وجہ سے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ دوسری جگہ کام نہیں کریں گے، تب بھی ان کے لیے وعدہ خلافی کرنا جائز نہیں ہوگا، اور بلاعذر وعدہ خلافی کی صورت میں ایسا  ملازم گناہ گار ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر   مذکورہ پراجیکٹ کا ٹھیکہ آپ کی ملازمت کی مفوضہ  ذمہ داریوں میں سے  ہے تو آپ کے لیے دوست کے ساتھ مل کر مذکورہ ٹھیکہ لینا جائز نہیں ہے، اور اگر مذکورہ ٹھیکے کا کام  آپ کی ملازمت کی مفوضہ ذمہ داریوں کا حصہ نہیں ہے تو تفصیل یہ ہے کہ اگر آپ  کا دوست کے ساتھ مل کر ٹھیکے پر کام کرنے سے کمپنی کے کام (جو بطورِ ملازم آپ کی ذمہ داری ہے)پر اثر پڑتا ہو، یا کمپنی کی طرف سے دو سرا کام(بطورِ ٹھیکہ دار وغیرہ) کرنے پر پابندی ہو تو بھی  آپ کے لیے ٹھیکہ پر کام لینا جائز نہیں ہوگا، اور اگر مذکورہ دونوں صورتیں (ملازمت کے کام پر اثر پڑنااور  کمپنی کی طرف سے پابندی کا ہونا)نہ ہو تو  کمپنی کے علم میں لا کر فارغ اوقات میں ٹھیکے کا کام کرنا جائز ہوگا۔

النتف فی الفتاویٰ میں ہے:

"‌والاجارة ‌لاتخلو من وجهين:اما ان تقع على وقت معلوم او على عمل معلوم فان وقعت على عمل معلوم فلا تجب الاجرة الا باتمام العمل اذا كان العمل مما لا يصلح اوله إلا بآخره وان كان يصلح اوله دون آخره فتجب الاجرة بمقدار ما عمل

واذا وقعت على وقت معلوم فتجب الاجرة بمضي الوقت ان هو استعمله او لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الاجرة."

(‌‌كتاب الاجارة، ‌‌معلومية الوقت والعمل، ج:2، ص:558، ط:مؤسسة الرسالة)

    فتاوی شامی میں ہے:

"و ليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: و ليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(کتاب الاجارۃ، باب ضمان الاجارۃ، ج:6، ص:70، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"ولايجوز أخذ المال ليفعل الواجب."

(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: 5، ص: 362، ط: سعید)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(و) ثاني النوعين ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير واحد أيضا (هو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص) وفوائد القيود عرفت مما سبق (ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته، وإن لم يعمل كأجير شخص لخدمته أو رعي غنمه) وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع من العمل مانع كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل اعلم أن الأجير للخدمة أو لرعي الغنم إنما يكون أجيرا خاصا إذا شرط عليه أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره أو ذكر المدة أو لا نحو أن يستأجر راعيا شهرا ليرعى له غنما مسماة بأجر معلوم، فإنه أجير خاص بأول الكلام أقول سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن يكون لغيره فيها أيضا."

(کتاب الاجارۃ، انواع الاجیر، ج:2، ص:236، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں