بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی میں تین دن تاخیر سے آنے پر ایک دن کی کٹوتی کا ضابطہ / اتوار کی چھٹی کی کٹوتی


سوال

1-  فتوی نمبر 144206200796 کے مطابق تین دن نوکری پر لیٹ جانے کی وجہ سے ایک دن کی تنخواہ کٹ جانا، یہ ناجائز ہے،  لیکن اگر یہ معاہدہ کے وقت یعنی جب ملازم کو کمپنی رکھے اسی وقت یہ بات کرلے؛ تاکہ تاخیر کے مسائل پیدا نہ ہوں  تو پہلے سے معاہدہ کرکے رکھنا جس کو ملازم تسلیم بھی کرلے، آیا جائز ہے یا نہیں؟

2- اتوار کے دن کی تنخواہ ملازمین کو اضافی دی جاتی ہے جس کا وہ کام نہیں کرتے،  اب کمپنی یہ اصول رکھے کہ ہفتہ میں ایک دن نہ آنے کی وجہ سے اس ہفتہ کی اتوار  (جس میں ملازم کی چھٹی ہوتی ہے ملازم کام پر نہیں آتا، لیکن تنخواہ اس دن کی دی جاتی ہے) کی چھٹی بھی کاٹی جائے گی تو آیا یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا مذکورہ  ضابطہ کہ  تین  دن تاخیر سے آنے پر ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹنا  شرعاً درست نہیں ہے،  اس  لیے کہ  ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور  اجیرِ خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تن خواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اور جس قدر اس نے اس میں کوتاہی کی اس قدر اس کی تن خواہ سے کٹوتی کی جاسکتی ہے، لیکن کچھ دن تاخیر سے آنے پر  ایک پورے دن کی تن خواہ کی کٹوتی  کرنا  جائز نہیں ہے؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تو وہ تن خواہ کا مستحق ہے ۔

نیز جب ابتدائے معاہدہ میں ملازم کی ماہانہ تنخواہ مقرر ہوگئی تو خود  اس کی یومیہ تنخواہ بھی مقرر ہوگئی ہے،  اور تین دن تاخیر سے آنے پر ایک دن کی تنخواہ کاٹنا یہ مالی جرمانہ ہے، جوکہ جائز نہیں ہے، اور ابتدائے معاہدے میں اگر یہ شرط ہو تو یہ معاہدہ میں ہی  ایک ناجائز شرط ہوگی،  گویا مالی جرمانہ کی شرط اور اس پر رضامندی ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔

البتہ تن خواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ  ملازم کی ماہانہ تن خواہ کو  اس کی ملازمت کے مکمل وقت  (مثلاً صبح  8 سے شام  5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے،  پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو  اس کی تن خواہ  میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کی جاسکتی ہے۔

اور  کمپنی کے نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لیے    یہ صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں:

1۔ سالانہ بونس (اگر تنخواہ کا حصہ نہ ہو، بلکہ تبرعًا ہو) سے کٹوتی کرنا۔

2۔ سال میں زیادہ تاخیر سے آنے والے  ملازمین کے  سالانہ انکریمنٹ  میں کمی کردینا۔

3۔  زیادہ تاخیر سے آنے والوں کو ملازمت سے برطرف کردینا۔

4۔ ترغیب کے طور پر  ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر وقت کی پابندی کرنے والوں کے   لیے کوئی انعام مقرر کرنا، وغیرہ۔

2-  ہفتے میں ایک دن قانونًا اور عرفًا چھٹی ہوتی ہے،  اور وہ عمومًا اتوار کی ہوتی ہے؛ لہذا اتوار کو اگر کمپنی بند ہو  تو  اس ہفتہ  میں  کسی دن ملازم کے نہ آنے کی صورت  اس کی اس دن کی تنخواہ تو کاٹی جاسکتی ہے، لیکن اتوار کو ملاکر اس کی دو دن کی تنخواہ  کاٹنا جائز نہیں ہوگا۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ ملازم کے بھی حقوق ہیں، اسے اپنے گھر اور خاندان والوں اور متعلقین کو بھی وقت دینا ہوتاہے، ذاتی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں، اور آرام وغیرہ کے بھی تقاضے ہوتے ہیں، جب کہ پورا ہفتہ، یا مہینہ مسلسل کام کے نتیجے میں انسانی زندگی کے بہت سے امور میں خلل واقع ہوسکتاہے، اس لیے کمپنی مالکان کو چاہیے کہ وہ ملازمین کے حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں ہفتے میں ایک چھٹی دیں۔

     فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة". (6/70،  کتاب الاجارۃ، ط: سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

 "لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".

(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیة)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(5/41، فصل فی التعزیر، ط:  سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں