بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی میں اوور ٹائم (over time) لگانے کا حکم


سوال

کمپنی میں اوور ٹائم (over time) لگانا درست ہے یا نہیں؟

جواب

کسی بھی ادارے (کمپنی وغیرہ) کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے،  اور چوں کہ ملازمین کی ملازمت کا ایک خاص وقت متعین ہوتا ہے، اور اسی وقت کا انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے، اس لیے اس متعین وقت کے بعد ملازم کا اضافی وقت میں کام کرنا (جسے عرفِ عام میں اوور ٹائم (over time) لگانا کہتے ہیں) ملازم کی طرف سے ایک احسان ہے، جس پر ملازم کو شرعی اعتبار سے مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔ کمپنی کے مالکان / ذمہ داران کو اگر ملازمین سے اضافی وقت میں کام لینے کی ضرورت پڑے تو ان کو چاہیے کہ ملازمین کے ساتھ اس اضافی وقت کے کام اور اجرت کا الگ سے معاہدہ کریں، یعنی مالکان اضافی وقت کی اجرت طے کرکے ملازمین کو اس اضافی اجرت کے عوض اضافی وقت میں کام کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں، مجبور نہیں کرسکتے، ملازمین میں سے جو بھی اپنی خوشی اور رضامندی سے اوور ٹائم لگانا (یعنی اضافی وقت میں کام کرنا) چاہے تو اس کے لیے اضافی اجرت لینا جائز ہوگا۔

    فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة...وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(کتاب الاجارۃ،6/70، ط:سعید)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(و) ثاني النوعين ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير واحد أيضا (هو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص) وفوائد القيود عرفت مما سبق (ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته، وإن لم يعمل كأجير شخص لخدمته أو رعي غنمه) وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع من العمل مانع كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل اعلم أن الأجير للخدمة أو لرعي الغنم إنما يكون أجيرا خاصا إذا شرط عليه أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره أو ذكر المدة أو لا نحو أن يستأجر راعيا شهرا ليرعى له غنما مسماة بأجر معلوم، فإنه أجير خاص بأول الكلام أقول سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن يكون لغيره فيها أيضا."

(کتاب الاجارۃ ،انواع الاجیر،ج:2/ 236،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں