بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کو کاروبار کے لیے دی گئی رقم پر زکوٰۃ کا حکم


سوال

کوئی کمپنی اپنی برانچ کا افتتاح کرتی ہے ،اور اس کمپنی کی شرط کے مطابق ہم اس میں اپنی رقم کی سال بھر کے لئے انویسٹ کرتے ہیں ، سال مکمل ہونے سے پہلے ہم رقم واپس نہیں لے سکتے،نفع نقصان کا حساب سال بھر کے بعد کیا جائے گا۔اب سوال یہ ہے کہ سال بھر کے لئے انویسٹ کی جانے والی اس بنیادی رقم یر زکوٰۃ لاگو ہو گی یا اس سے        ملنے والے نفع پر سال گزر جانے پر لاگو ہو گی یا اصل و نفع دونوں یر لاگو ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ  وجوبِ زکات کے لیے صاحبِ نصاب ہونا اور زکات کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے اس پر سال گزرنا شرعاً ضروری ہے،  جس روز کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد نصاب کے بقدر مال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) جمع ہوجائے اس دن سے وہ شرعاً صاحبِ نصاب شمار ہوگا اور اسی دن سے سال کا حساب بھی کیا جائے گا، اور قمری حساب سے سال پورا ہونے پر اسی تاریخ کے اعتبار سے زکات واجب ہوگی۔

صورت مسئولہ میں آپ نے جو رقم  کمپنی میں اُن  کی شرط کے مطابق  لگائی   ہے، اور سال مکمل ہونے سے پہلے وہ رقم واپس نہیں کی جائے گی،نفع ونقصان کا حساب سال بھر کے بعد کیا جائے گا،  تو  اس صورت میں آپ پر اُس رقم کی زکاۃ ادا کرنالازم ہے جس پر سال گزر جائے، خواہ وہ اصل ہو یا  منافع   ہو دونوں پر زکاۃ لا زم ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وثمنية ‌المال ‌كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة."

(كتاب الزكوة ،٢٦٧/٢،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج وأما المبيع قبل القبض فقيل لا يكون نصابا والصحيح أنه يكون نصابا كذا في محيط السرخسي."

( كتاب الزكوة،١٧٢/١،ط: دار الفکر) 

نور الایضاح میں ہے:

"شروط وجوبها الإسلام والبلوغ والعقل والحرية وملك نصاب حولي فارغ عن الدين وحاجته الأصلية نام ولو تقديرا، شروط وجوب أدائها حولان الحول القمري على النصاب الأصلي بحيث يوجد في طرفي الحول، ولونقص في وسطه".

(كتاب الزكاة، شروط وجوبها،١٢٠،ط. دار الحكمة، دمشق)

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

"هي تمليك مال مخصوص لشخص مخصوص فرضت على حر مسلم مكلف مالك لنصاب من نقد ولو تبرا أو حلييا أو آنية أو ما يساوي قيمته من عروض تجارة فارغ عن الدين وعن حاجته الأصلية ولو تقديرا. وشرط وجوب أدائها حولان الحول على النصاب الأصلي وأما المستفاد في أثناء الحول فيضم إلى مجانسه ويزكي بتمام الحول الأصلي سواء استفيد بتجارة أو ميراث أو غيره".

( كتاب الزكاة ٢٧١، ط: المكتبة العصرية)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"وهي (واجبة) والمراد بالوجوب الفرض؛ لأنه لا شبهة فيه. هداية. (على الحر المسلم البالغ العاقل إذا ملك نصاباً) فارغاً عن دين له مطالب وعن حاجته الأصلية نامياً ولو تقديراً (ملكاً تاماً وحال عليه الحول)".

 (كتاب الزكاة ،١٣٦/١،ط: المكتبة العلمية)

تحفۃ الفقہاءميں ہے:

"ثم مال الزكاة يعتبر فيه كمال النصاب ‌في ‌أول ‌الحول ‌وآخره ، ونقصان النصاب بين طرفي الحول لا يمنع وجوب الزكاة سواء كان مال التجارة أو الذهب والفضة أو السوائم هذا عند أصحابنا الثلاثة.

فأما إذا هلك النصاب أصلا بحيث لم يبق منه شيء يستأنف الحول لأنه لم يوجد شيء من النصاب الأصلي حتى يضم إليه المستفاد."

(كتاب الزكاة،٢٧٢/١، ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں