میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں، کمپنی میں کچھ شیر ایک بینک کے بھی ہیں، کمپنی 10سال سے زیادہ ملازمت والے ورکرز کو گھر بنانے کے لیے ہاؤس بلڈنگ لون بینک سے لے کر دیتی ہے، یہ معاملات کمپنی ایڈمن ڈیپارٹمنٹ ڈیل کرتا ہے، اس کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کے ہم کو ایک مکان منتخب کرنا ہوتا ہےاور کمپنی اس کی مذکورہ رقم ڈائریکٹ مکان فروخت کرنے والے کو ادا کردیتی ہے اور مکان کے کاغذات ہمارے نام ہوجانے کے بعد جب تک آخری قسط ادا نہیں ہوجاتی وہ کمپنی ایڈمن کے پاس محفوظ رہتے ہیں۔ قرض جسے 10سال میں واپس کرنا ہوتا ہے اس پر4٪ اضافی چارج وصول کرتی ہے جو کہ براہِ راست بینکوں سے قرضہ لینے سے بہت کم ہے۔ بطورقرض دی ہوئی رقم کا معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ مثلاً ہم نے جو مکان خریدنا ہے اس کی مالیت 64 لاکھ کمپنی نے اداکی اور مکان ہمارے نام ہو گیا اب ہم نے کمپنی کو بشمول 4٪ اضافی چارجز کے کل 78 لاکھ رقم دس سالہ اقساط میں ادا کرنی ہے اور مذکورہ لون کی قسط ہر ماہ تنخواہ سے کاٹ لی جاتی ہے، پہلے اس 4٪ کو مارک اپ کہا جاتا تھا پھر ورکر یونین نے اس معاملے پر انتظامیہ سے بات کی کہ مارک اپ کو ختم کر دیا جائے اور اسے انٹرسٹ فری لون کردیا جائے جس پر انتظامیہ نے اس 4٪ جو اضافی وصول کیا جاتا ہے اس کے لیے یہ سرکلر نکالا کہ یہ اب سروس چارجز ہیں لیا جائے گا نہ کہ مارک اپ۔ میری کوئی ذاتی جائیداد پراپرٹی یا گھر نہیں ہے کیا میں یہ لون لے سکتا ہوں؟ جائز ہے لینا یا ناجائز ہے؟
واضح رہے کہ بینک چوں کہ قرض دینے پر نفع وصول کرتا ہے، تو بالواسطہ یا بلا واسطہ بینک سے قرض (لون) لینا شرعًا نا جائز ہے ۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کمپنی 10 سال سے زیادہ ملازمت کرنے والے اپنے ملازمین کو جو بینک سے ہاؤس بلڈنگ لون لے کردیتی ہے، اور ملازم مکان منتخب کرکے کمپنی کے ذریعہ خریدتا ہے، یعنی کمپنی بینک سے لیا ہوا لون ملازم کی طرف سے مکان فروخت کرنے والے کو ادا کردیتی ہے، اور ملازم کو اس رقم کے ساتھ ساتھ مزید 4٪ اضافی چارجز کمپنی کو 10 سال میں قسطوں پر ادا کرنا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملازم بالواسطہ(یعنی کمپنی کے ذریعہ) بینک سے سودی قرض لے رہا ہے اور کمپنی خود قرض پر نفع وصول کررہی ہے جب کہ شرعاً یہ دونوں کام ہی ناجائز اور حرام ہیں، لہذا اس طریقہ سے مکان خریدنے سے احتراز کیا جائے۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."
( كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:3، ص:1219، ط: دار إحياء التراث العربي)
المحیط البرہانی میں ہے:
"ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصرف عن أبي حنيفة رضي الله عنه: أنه كان يكره كل قرض فيه جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد، وذلك بأن أقرضه غلته ليرد غلته صحاحا أو ما أشبه ذلك، وإن لم يكن مشروطا فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."
(كتاب الاِستسحان والكراهة، الفصل التاسع والعشرون في القرض ما يكره من ذلك، وما لا يكره، ج: 5 ص: 394 ط: دار الكتب العلمية)
الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:
"لا خلاف بين الفقهاء في أن اشتراط الزيادة في بدل القرض للمقرض مفسد لعقد القرض، سواء أكانت الزيادة في القدر، بأن يرد المقترض أكثر مما أخذ من جنسه، أو بأن يزيده هدية من مال آخر، أو كانت في الصفة، بأن يرد المقترض أجود مما أخذ، وإن هذه الزيادة تعد من قبيل الربا."
(قرض، اشتراط الزيادة للمقرض، ج:33، ص:130،131، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144605102022
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن