بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کی طرف سے ملنے والی میڈیکل انشورنس کے استعمال کا حکم


سوال

میں ایک پرائیوٹ کمپنی میں نوکری کرتا ہوں، کمپنی نے ہمیں میڈیکل کی سہولت دی ہوئی ہے۔ کمپنی نے میڈیکل کی سہولت کے لیے ایک انشورنس کمپنی  کو کونٹریکٹ دیا ہوا ہے۔ ہماری کمپنی ماہانہ یا سالانہ ایک ورکر کے حساب سے پیسے جمع کرواتی ہے۔ اب اگر کسی ورکر کو میڈیکل کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ سال میں تین لاکھ روپے کا میڈیکل استعمال کر سکتا ہے،  جبکہ کمپنی ورکر سے کوئی ماہانہ یا سالانہ رقم نہیں لیتی۔

کیا اس قسم کا انشورنس کارڈ کا استعمال جائز ہوگا؟اور میں نے اپنے بیٹے کی ولادت پر یہ انشورنس کارڈ کا استعمال کیا تھا،  جس پہ ساٹھ ہزار روپے انشورنس کمپنی نے  مجھے دئیے تھے۔اگر اس قسم کی انشورنس جائز نہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟  برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  اگر  کوئی کمپنی طبی سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے  میڈیکل کارڈ اپنی جانب سے تمام ملازمین کو فراہم کرتی ہو، اور اس فراہمی کے عوض میں ملازمین کی تنخواہ سے کسی بھی قسم کی کٹوتی نہ کرتی ہو تو ایسی صورت میں ملازمین کے لیے مذکورہ کارڈ استعمال کرنے کی شرعاً  گنجائش ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل جس کمپنی میں نوکری کرتاہے  جب اس کمپنی  نےاپنی جانب سے ملازموں کو میڈیکل کی سہولت دی ہوئی ہے اور اس کے عوض میں ملازموں سے کسی قسم کی کٹوتی بھی نہیں کرتی، اس لیے مذکورہ کارڈ کا استعمال کرنا جائز ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها."

(كتاب الإجارة، ج: 7، ص: 300، ط: دار الكتاب الإسلامي)

'الموسوعۃ الفقہیۃ' میں ہے:

"العطية: هي ما أعطاه الإنسان من ماله لغيره، سواء كان يريد بذلك وجه الله تعالى، أو يريد به التودد، أو غير ذلك."

(تحت عنوان الزکاۃ، ج: 23، ص: 227، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية  ۔الكويت)

الدر المختار میں ہے:

"(هي) لغةً: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعًا: (تمليك العين مجانًا) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه... (وسببها إرادة الخير للواهب) دنيوي كعوض ومحبة وحسن ثناء، وأخروي."

(شامي، كتاب الهبة، ج: 5، ص: 687، ط: سعید)

'موسوعۃ القواعد الفقہیۃ' میں ہے:

"التّبرّع: ‌هو ‌إعطاء ‌مجّاني دون مقابل."

(ج: 8، ص: 868، ط: دار الرسالة العالمية)

مفتی ولی حسن صاحبؒ دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن سے جاری شدہ اپنے ایک فتوی میں تحریر فرماتےہیں:

سوال

میں ایک پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہوں ، سعودی عرب کے لیبر قوانین کے تحت ملازمین کے تمام طبی اخراجات کمپنی کو برداشت کرنے پڑتے ہیں،  لیکن ملازمین کے بیوی،  بچوں کے طبی اخراجات کمپنی کے ذمہ نہیں۔  ہماری کمپنی ایک نئی اسکیم رائج کر رہی ہیں جس کے تحت بیوی،  بچوں کے اخراجات بھی کمپنی ہی برداشت کرے گی بشرطے کہ ملازم ایک انشورنس (بیمہ)  کا فارم بھر کر اور دستخط کر کے دے۔ کمپنی بیوی،  بچوں کے طبی اخراجات ادا کر دے گی اور خود انشورنس کمپنی سے یہ پیسہ وصول ہو جائے گا۔  انشورنس پریمیم یعنی انشورنس کمپنی کی فیس ہماری کمپنی خود ادا کرے گی ہمیں کوئی حصہ بھی برداشت نہ کرنا ہوگا۔ میرا جو کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہے،  اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ وہ میرے بیوی،  بچوں کے طبی اخراجات اٹھائے گی،  لیکن سعودی عرب میں طبی اخراجات بےانتہاء  مہنگے ہیں  اس لیے دل چاہتا ہے کہ اس اسکیم میں شرکت کر لوں۔  آیا میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

جب ملازم اس بیمہ اسکیم میں کوئی رقم ادا نہیں کرتا اور سب کچھ حکومت کرتی ہے تو اس قسم کا بیمہ جائز ہے ۔

(فتوی نمبر: 395، بتاریخ:  30 شعبان، 1400ھ)

مفتی شفیع صاحبؒ اپنی کتاب  " پراویڈنٹ فنڈ" میں تحریر فرماتے ہیں:

پراویڈ نٹ فنڈ پر محکمہ کی طرف سے سود کہہ کر دی جاتی ہے اس کے سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ سود اور ربا ایک معاملہ ہے جو دو طرفہ بنیاد پر متعاقدین میں طے ہو کر وجود میں آتا ہے  پراویڈنٹ  فنڈ درحقیقت ملازم کی خدمات کے معاوضہ کا ایک حصہ ہے جو ابھی تک وصول نہیں کیا لہذا یہ محکمہ کے ذمہ ملازم کا دین ہے اور جب تک ملازم خود یا اپنے وکیل کے ذریعہ اس پر قبضہ نہ کر لے وہ اس کا مال مملوک نہیں ہے ۔

لہذا جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادادین ملازم کو ادا کرتا ہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے( یہ مزید رقم خواہ وہ ہو جو محکمہ ماہ بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے اور خواہ وہ ہو جو سالانہ سود کے نام سے اس کے حساب میں جمع کی جاتی ہے) تو یہ بھی محکمہ  کا اپنا یک طرفہ عمل ہے، کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعاً معتبر نہیں،  اس لیے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے ۔ بنا بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی،  خواہ محکمہ نے اس سود کا نام لے کر دیا ہو ۔

اگر کوئی ملازم اپنی پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کو درخواست دے کر کسی بیمہ کمپنی میں منتقل کرا دے یا یہ فنڈ ملازم کی رضامندی سے کسی مستقل کمیٹی کی تحویل میں دے دیا جائے جیسے کہ بعض غیر سرکاری کارخانوں میں ہوتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے خود وصول کر کے بیمہ کمپنی یا کمیٹی کو دے،  اس لیے اس رقم پر جو سود لگایا جائے وہ شرعاً  سود ہی کے حکم میں ہے اور قطعاً  حرام ہے، کیونکہ اس صورت میں بیمہ کمپنی یا کمیٹی اس کی وکیل ہو جاتی ہے اور وکیل کا قبضہ شرعاً  مؤکل کا قبضہ ہوتا ہے ۔

(مأخوذ: پراویڈنٹ فنڈ، مرتبہ: مفتی شفیع صاحبؒ، ص: 18۔24، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں