کمپنی کی طرف سے جو سالانہ بونس ملتا ہے اس کے ساتھ اس رقم کا سود بھی متعین ہوتا ہے، تو کیا ملازم کے لیے کل رقم مع سود کے وصول کرنا درست ہے؟
اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ کمپنی وہ پیسہ بینک میں رکھواتی ہے، جس پر اس کو سود بھی ملتا ہے اور اسی سودی رقم سے کمپنی بونس دیتی ہے، تو کمپنی جو بینک سے اس رقم پر سود وصول کررہی ہے،ملاز م کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، ملازم اس سے گناہ کار نہیں ہوگا، اس کے لیے بونس لینا درست ہے۔
اور اگر سائل کی اس سے کوئی اور مراد ہے، تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ سوال بھیج دیا جائے۔
جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس جيسے مسئلہ جي پی فنڈ سے متعلق لکھتے ہیں:
"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے ،وہ شرعًا سود نہیں ، بلکہ اجرت(تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے، اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ۔"
(جواہر الفقہ ، ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100774
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن