بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کی مسجد میں تکرار جماعت کا حکم


سوال

ہماری کمپنی میں مینجمنٹ نے رمضان المبارک میں ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں دو جماعتوں  کی ترتیب رکھی ہے، جو ہر سال ہوتی ہے،اب میرا سوال یہ ہے کہ  آیا اس دوسری جماعت کا حکم کیا ہے؟ اور اگر درست ہے تو اس کے  لیے اقامت کہی جائے گی کہ نہیں؟ واضح رہے کہ دوسری جماعت کا امام پہلی جماعت کے امام کی جگہ چھوڑ کر ایک صف پیچھے کھڑے ہوتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  بیان  کی گئی مسجد میں اگر پانچوں نمازیں باجماعت  ادا کرنے کااہتمام کیا جاتا ہے  ،  امام اور مؤذن مقرر ہیں تو ایسی صورت میں مفتی بہ قول کے مطابق اس  مسجد میں دوسری جماعت کروانا  مکروہ تحریمی ہے،البتہ دوسری جماعت مسجد کے ایسے حصے میں کروائی جاسکتی ہےجو خارج ِ مسجد ہو ۔

اور اگر اس مسجد میں نہ تو پانچوں نمازیں با جماعتادا کرنے کااہتمام کیا جاتاہے اور  نہ امام اور مؤذن مقرر  ہیں ،  تو  اقامت کے ساتھ ایک سے زائد  جماعتیں بھی   کروائی جاسكتی ہیں،اور  ہر  جماعت کا امام ایک ہی جگہ کھڑا ہوکر بھی  نماز پڑھا سکتا ہے ، اگرچہ ہر دوسرے امام کے لیے اپنے سے پہلے امام کی جگہ سے کچھ  ہٹ کر نماز پڑھانا بہتر ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتكرار الجماعة إلا في مسجد على طريق فلا بأس بذلك جوهرة.

"(قوله: إلا في مسجد على طريق) هو ما ليس له إمام ومؤذن راتب فلا يكره التكرار فيه بأذان وإقامة، بل هو الأفضل خانية."

(كتاب الصلاة،باب الأذان،393/1،ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ)بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر، والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. ...................

وأما مسجد الشارع فالناس فيه سواء لا اختصاص له بفريق دون فريق اهـ ومثله في البدائع وغيرها،........... وقد مر أنه لا كراهة في تكرار الجماعة فيه إجماعا فليتأمل،

هذا وقدمنا في باب الأذان عن آخر شرح المنية عن أبي يوسف أنه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره، وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية انتهى. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة،552،53/1،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولنا :أنه - عليه الصلاة والسلام - كان خرج ليصلح بين قوم ‌فعاد ‌إلى ‌المسجد وقد صلى أهل المسجد فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة،553/1،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فيستعجلون فتكثر الجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم يتأخرون فتقل الجماعة، وتقليل الجماعة مكروه، بخلاف المساجد التي على قوارع الطرق؛ لأنها ليست لها أهل معروفون، فأداء الجماعة فيها مرة بعد أخرى لا يؤدي إلى تقليل الجماعات."

(کتاب الصلاۃ،فصل بیان کیفیة الأذان،153/1،ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"مسجد ليس له مؤذن وإمام معلوم يصلي فيه الناس فوجا فوجا بجماعة فالأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة. كذا في فتاوى قاضي خان في فصل المسجد."

(کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان،الفصل الثاني في صفة الأذان وأحوال المؤذن،61/1،ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں