بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ملازم کا ان ملازمین کے ساتھ کھانا جہاں کمپنی کی طرف سے اسے اجازت نہیں ہے


سوال

1) کیا فرماتے اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ سرکاری ادارے میں کام کرتا ہے،بطورملازم اور ادارہ کی  طرف سے اس ملازم کو سواری کے لئے گاڑی وغیرہ دی جاتی ہے،اب اس سواری کا ملازمت کے علاوہ دیگر ضروریات میں بھی استعمال درست ہے یا نہیں ؟اور اس شخص کے علاوہ اس کے رشتہ دار یا اولاد اس کو استعمال کرسکتے ہیں،یا نہیں ؟

2) سرکاری ادارہ میں کسی ملازم سے ذاتی کام کے لیے  کوئی مہمان آتاہے ،اور یہ مہمان اس ادارہ سے کھانا کھاسکتاہے،یا نہیں ؟

نوٹ: جب کہ کھا نا بیت المال کے پیسے سے تیارہواہے۔

جواب

1)  اگر ادارے  کی انتظامیہ نےملازم  کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ  یااس کے رشتہ دار ، اولاداپنے ذاتی سفر وغیرہ میں  گاڑی   استعمال کر سکتےہیں تو ان کے لیےاپنے ذاتی سفر وغیرہ میں  گاڑی   استعمال  کرنا جائز ہے۔

بصورت دیگر اگر  ادارے نے اجازت نہیں دی  تو ان کےلئے اپنے ذاتی سفر میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

2) نیز ملازمت کے وقت جو ادارے سے معاہدہ کیا جائے، اس کی پاسداری کرنا لازم ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگرکھانے کی سہولت صرف ملازمین کوحاصل ہوتوادارہ کی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر   ملازمین کے کھانے سے اپنےذاتی مہمانوں کی مہمان نوازی کر نا اصولاً  جائز نہیں ہے، اور معاہدے کی خلاف ورزی ہے، نیز خصوصاً جب یہ مہمان نوازی بیت المال کے پیسوں سے کی جاتی ہو تو اس میں مزید قباحت ہے؛ کیوں کہ بیت المال میں عوام الناس کا حق ہے، اور حکومتی ادارے اُس کے امین ہیں، اُس میں بغیر اجازت کے تصرفات کرنا، خیانت کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

سنن أبي داود میں ہے: 

" حدثنا سليمان بن داود المهري ، أنا ابن وهب أخبرني سليمان بن بلال . (ح) ونا أحمد بن عبد الواحد الدمشقي ، نا مروان يعني: ابن محمد ، نا سليمان بن بلال أو عبد العزيز بن محمد - شك الشيخ - عن كثير بن زيد ، عن الوليد بن رباح ، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الصلح جائز بين المسلمين. زاد أحمد: إلا صلحا حرم حلالا...أو أحل حراما، زاد سليمان بن داود، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌المسلمون ‌على شروطهم.".

(‌‌باب في الصلح،٣٣٢/٣،ط : المطبعة الأنصارية)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أنس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: لا ‌إيمان ‌لمن ‌لا ‌أمانة له ولا دين لمن لا عهد له ."

(کتاب الایمان، الفصل الثانی،١٧/١، ط:المكتب الإسلامي )

فتاوی شامی میں ہے:

قوله وكشرط طعام عبد وعلف دابة) في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على ‌أن ‌يكون ‌علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز. وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اهـ. .. قال الحموي: أي فيصح اشتراطه. واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلا شرط ومنه بشرط اهـ.. أقول: المعروف كالمشروط، وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه".

(‌‌باب الإجارة الفاسدة،٤٥/٦،ط : دار الفكر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144508100754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں