بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ملازم کو اضافی سہولت فراہم کرنے کا حکم


سوال

1۔اگر کوئی کمپنی اپنے ملازمین کے ساتھ معاہدہ کرتی ہے اور اس میں ملازم کو میڈیکل کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جو میڈیکل کا خرچہ جیسا کہ ڈاکٹر کی فیس اور دوائیاں وغیرہ خریدی جائیں گی اس کی رسیدیں ایک مہینے میں جمع کرانی ہوں گی اگر ایک مہینے میں تفصیلات جمع نہ کروائی گئیں تو آپ کو میڈیکل کا خرچہ نہیں ملے گا اس لیے کہ بعد میں حساب کتاب کرنا مشکل ہوتا ہے۔

اب صورت یہ ہے کہ ایک ملازم نے میڈیکل کے پرچے دو مہینے یا تین مہینے کے بعد جمع کرائے باوجودیکہ اس کو درمیان میں دو یا تین مرتبہ یاددہانی بھی کرائی گئی تھی۔

کیا اس صورت میں میڈیکل کا خرچہ اس ملازم کا حق ہے یا نہیں ؟نیز کمپنی پر یہ میڈیکل کا بل ادا کرنا لازم ہے یا نہیں ؟

2۔اگر ہم تقرری کے وقت اس سے ایک کاغذ پر اس سے دستخط کروالیں کہ اگر اس تاریخ تک میں نے بل جمع نہیں کرایا تو مذکورہ رقم میری طرف سے خیرات میں دے دی جائے۔کیا ایسا کرنا مناسب ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر کمپنی کا ملازم سے باقاعدہ معاہدہ ہے کہ وہ اسے میڈیکل کی سہولت اپنے ضابطے کے مطابق فراہم کرے گی، اور  ملازم کو میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے کے متعلق کمپنی کا قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر ملازم کمپنی کو میڈیکل کے اخراجات کی رسیدیں ایک مہینے کے اندر جمع کروادیتا ہے تو کمپنی اس کو میڈیکل وغیرہ کے تمام اخراجات ادا کرتی ہے اور اگر ایک مہینے کے اندر ملازم میڈیکل  کے اخراجات کی تفصیل کمپنی کو نہیں دیتا تو کمپنی اس کو اخراجات نہیں دیتی ، اور یہ بات ملازمین کے سامنے واضح بھی کردی جاتی ہے، تو جو  ملازم ایک مہینے کے اندر میڈیکل کے اخراجات کی رسیدیں جمع کروادیتا ہے تو وہ میڈیکل کے اخراجات لینے  کا مستحق ہوگا اور جو ملازم  ایک مہینےکے اندر  میڈیکل اخراجات کی تفصیل  کمپنی کو نہیں دیتا  وہ اس سہولت کا مستحق نہیں ہوگا۔

2۔ مذکورہ سہولت کمپنی کی طرف سے ملازم کے لیے ایک تبرع اور احسان ہے، جوکہ ایک ماہ کی میعاد کے ساتھ مشروط ہے، اور ایک ماہ گزرنے کے بعد جب ملازم کا استحقاق نہ رہا، اس معاہدہ کی ضرورت نہیں، اگر کمپنی چاہے، تو اپنی طرف سے ایک ماہ کے بعد بھی دے دے اور اگر چاہے، تو نہ دے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا." [الإسراء: 34]         

تفسير ابن كثير ميں هے:

"وقوله [تعالى]: {وأوفوا بالعهد} أي الذي تعاهدون عليه الناس والعقود التي تعاملونهم بها، فإن العهد والعقد كل منهما يسأل صاحبه عنه {إن العهد ‌كان ‌مسئولا} أي: عنه."

(ج:5، ص:74، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

روح المعانی میں ہے:

"وأوفوا بالعهد ما عاهدتم الله تعالى عليه من التزام تكاليفه وما عاهدتم عليه غيركم من العباد ويدخل في ذلك العقود."

(ج:8، ص: 79، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں