بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ملازم کا کمپنی سے دوا خرید کر منافع کے ساتھ بیچنے کا حکم


سوال

میرا بھائی دواؤں کی ایک کمپنی میں کام کرتا ہے، وہ کمپنی میرے چچا کی ہے، میرا بھائی مختلف علاقوں کے میڈیکل اسٹوروں سے آرڈر لے کر آتا ہے، اور کمپنی سے دوائی لے کر میڈیکل اسٹور پہنچا دیتا ہے، اور میڈیکل اسٹور سے دوائی کے پیسے وصول کر کے کمپنی میں جمع کروادیتا ہے، مثلا ایک دوائی ہے جو کمپنی والوں کو  تقریبا 100 روپے کی پڑتی ہے اور کمپنی کی طرف سے اس کی قیمت 120 روپے متعین ہے،  بھائی وہ دوا میڈیکل اسٹور کو دے کر ان سے 120 روپے لے کر کمپنی میں جمع کروا دیتے ہیں، میڈیکل اسٹور والے وہ دوا تقریبا 900 روپے کی بیچتے ہیں، اب کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے محلے کے کچھ لوگوں کو اس دوائی کی ضروت پڑتی ہے،تو اگر وہ لوگ یہ دوائی میڈیکل اسٹور سے لیتے ہیں تو ان کو 900 روپے کی ملتی ہے، اس لیے وہ بھائی سے کہہ دیتے ہیں وہ ہمارے لیے وہ دوا لے آنا، لہٰذا میرے بھائی کمپنی سے وہ دوا 120 روپے کی خرید کر محلے کے لوگوں کو 400 روپے کی بیچ دیتا ہے، اور منافع خود رکھ لیتا ہے، کمپنی والوں کو چوں کہ اپنا 20 روپے منافع مل رہا ہے، اس لیے انہیں کوئی اعتراض نہیں، وہ بھائی کے اس طرح کرنے پر راضی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا میرے بھائی کا اس طرح کمپنی سے دوا خرید کر منافع رکھ کر آگے بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے بھائی کا کمپنی سے دوا 120 روپے میں خرید کر آگے منافع رکھ کر (مثلاً 400 روپے میں) بیچنا جائز ہے۔ البتہ اگر کمپنی آپ کے بھائی کو دوائی نہ بیچے، بلکہ آگے میڈیکل اسٹور کو پہنچانے کی ذمہ داری دے، تو اس صورت میں کسی دوسرے کو زیادہ قیمت میں بیچ کر اضافی منافع رکھنا،آپ کے بھائی کے لیے جائز نہیں ہوگا ، اور  کمپنی کی جانب سے  متعین کردہ قیمت سے زیادہ میں دوا بیچنے کی صورت میں   آپ کے بھائی پر لازم ہوگا کہ وہ جتنے میں دوا فروخت کی ہو، منافع کی مکمل رقم کے ساتھ ساری رقم  کمپنی میں جمع کروائے، اسی طرح اگر آپ کے بھائی محلے کے لوگوں کو یہ تاثر دیں کہ وہ خود یہ دوا ان لوگوں کو نہیں بیچ رہے، بلکہ بطورِ وکیل صرف کمپنی سے دوا لاکر ان لوگوں کو دے رہے ہیں اور کمپنی میں سارے پیسے جمع کروا رہے ہیں، تو اس صورت میں بھی منافع رکھنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ کمپنی ریٹ پر ہی دوا لوگوں کو دینی ہوگی، البتہ اس صورت میں دوا لاکر دینی کی اجرت پہلے سے طے کر کے وصول کی جاسکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌ والفرق بين الثمن والقيمة أن ‌الثمن ‌ما ‌تراضى ‌عليه المتعاقدان سواء زاد على القيمة أو نقص، والقيمة ما قوم به الشيء بمنزلة المعيار من غير زيادة ولا نقصان."

(كتاب البيوع، ‌‌باب خيار الشرط، مطلب في الفرق بين القيمة والثمن، 4/ 575، ط: سعید)

فتح القدیر لابن الہمام میں ہے:

" والحد المَذكور: أعني مبادلة المال بالمال علي وجه التّراضي بطريق الاكتساب إنما هو حد البيع الّذي هو عقد شرعي وهو المجموع المركب من الإِيجاب والقبول مع الارتباط الشرعي الحاصل بينهما."

(كتاب الوكالة، باب الوكالة في البيع و الشراء، فصل في البيع،8/ 80، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول والثاني التعاطي وهو الأخذ والإعطاء كذا في محيط السرخسي."

(کتاب البیوع، الباب الاول، ج:3، ص:2، ط:دارالفکر)

"فتاویٰ تاتارخانیہ" میں ہے:

"قال محمد الوكيل بالبيع بالف إذا باع بألفين جاز عندنا خلافا لزفر."

(کتاب الوکالة، نوع أخر في البيع إذا خالف في الثمن وفي تغير المبيع بعد التوكيل قبل البيع ، 12/ 373،  ط:مکتبة زکریا بدیوبند الھند)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"[فرع] الوكيل إذا خالف، إن خلافا إلى خير في الجنس كبع بألف درهم فباعه بألف ومائة نفذ، ولو بمائة دينار لا، ولو خيرا خلاصة ودرر."

(کتاب الوکالة، باب الوکالة بالبیع والشراء، 5/ 521، ط:سعید)

شرح المجلۃ میں ہے: 

"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان احكام الوكالة ، المادة 1463، ج:3، ص:561، ط: دارالجيل)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة."

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، ج3، ص:573، ط:دارالجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605100753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں