بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے لیے بندے ہائر کرنے کے بدلے کمیشن لینے کی چند صورتیں


سوال

میرے والد صاحب کی کمپنی ہے اور وہ لوگوں کو باہر ممالک  میں جہازوں پر   جاب پربھیجتے ہیں، تو جن کو ہم جاب پر بھیجتے ہیں، کبھی ان سے اور کبھی کمپنی سے کمیشن لیتے ہیں، اس میں چار صورتیں ہوتی ہیں:

1۔ یہ کہ جو شخص یا کمپنی ہمیں جاب دیتی ہے، اکثر وہ ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم آپ سےبندے لیں گے، آپ ان سے جاب کا کمیشن لیں اور کچھ کمیشن ہمیں بھی دیں۔

2۔دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اکثر کمپنیاں کہتی ہیں کہ ہم آپ کو کچھ  بھی پیسے نہیں دیں گے، صرف آپ جن بندوں کو جاب کے لیے بھیج رہے ہیں، ان سے جتنا چاہیں، آپ کمیشن لے سکتے ہیں، ہمیں صرف آپ بندے دے دیں۔

3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ بعض کمپنیاں یہ کہتی ہیں کہ ہم آپ سے بندے لیں گے اور آپ کی کمپنی کے جو سروس چارجز ہیں، وہ بھی ہم آپ کو دیں گے، لیکن بہت کم، تو کیا اس صورت میں ہم ان بندوں سے مزید پیسے لے سکتے ہیں جن کو ہم جاب پر بھیجتے ہیں؟

4۔چوتھی صورت یہ ہے کہ کمپنی ہمیں کہتی ہے کہ آپ جن کو ہمارے پاس جاب کے لیے بھیج رہے ہو، ان سے آپ کچھ وصول نہیں کرنا، بلکہ آپ کی کمپنی کے جو بھی سروس چاجز ہیں، وہ ہم آپ کو دیں گے، تو کیا اس صورت میں ہم ان بندوں سے مزید پیسے لے سکتے ہیں؟ اس صورت میں ہمیں ہمارے جتنے چارجز ہوتے ہیں، وہ کمپنی  دیتی ہے، لیکن کچھ ان بندوں کے کام جوائن کرتے وقت دیتی ہے اور کچھ ہر ماہ دیتی ہے، جب تک وہ بندہ ان کے پاس کام کرتا رہتا ہے۔

جواب

1، 2۔واضح رہے کہ شرعاً  جس کام کے حصول کے لیے محنت لگتی ہو، اس کا م پر طے کر کے اجرت لینا درست ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کمپنی میں  کسی آدمی کو  جاب پر لگاتا ہو اور اس میں اس کی محنت اور عمل لگتا ہو، تو اس بندے سے اور کمپنی دونوں سے اپنے عمل کے بدلے طے کر کے کمیشن (اجرت) لینا درست ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے والد کی کمپنی بیرونِ ملک جاب کے لیے افراد  تلاش کرتی ہے، اس کے لیے محنت اور کام کرتی ہے،  تو ان بندوں کو نوکری  دلانے کے لیے ان سے طے کر کے ایک مرتبہ اجرت (کمیشن) لینا جائز ہے، البتہ سائل کے والد جس کمپنی کو بندے مہیا کر کے دیتے ہیں، چوں کہ اس میں ان کا کوئی عمل نہیں لگتا، لہٰذا ان کے لیے محض نوکری دینے کے عوض کمیشن لینا جائز نہیں ہے، ہاں اگر کاغذات کی تیاری وغیرہ کا کام یہ کمپنی سرانجام دیتی ہو، تو ایسے عمل کی اجرت لےسکتی ہے۔

3۔سائل کے والد کی کمپنی کو دونوں (جس بندے کو جاب پر لگا رہے ہیں وہ اور جس کمپنی میں لگارہے ہیں وہ) سے کمیشن (اجرت) لینے کا حق حاصل ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دوسری کمپنی سے جو  سروس چارجز طے ہوجائیں، وہ لینا بھی جائز ہے اور جس کو جاب دلوارہے ہیں،ا س سے بھی طے کر کے اجرت لینا درست ہے۔

4۔ اگر دوسری کمپنی سائل کے والد کی کمپنی کے  کے ساتھ یہ معاہدہ کرلے  کہ جس کو جاب کے لیے بھیج رہے ہیں، ان سے آپ پیسے نہیں لیں گے، بلکہ جو بھی سروس چارجز ہوں گے، وہ ہم ادا کریں گے، تو ایسی صورت میں جن افراد کو سائل کے والد کی کمپنی جاب کے لیے بھیجتی ہے، ان سے اجرت لینا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، جو کہ درست نہیں ، باقی جتنی اجرت دوسری کمپنی سے طے ہوجائے اتنی لینا تو جائز ہے، چاہے یک مشت ہو، یا قسطوں پر ہو، لیکن اس شرط کے ساتھ کمیشن (اجرت) لینا کہ جب تک وہ بندہ جاب پر ہے، ہر ماہ مستقل کمیشن دیا جائے، درست نہیں۔

رد المحتار میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي ‌الدلال ‌والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الاجارة، ج؛6، ص:63، ط:سعيد)

الدر المختار میں ہے:

"هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض)."

(كتاب الأجارة، ج:6، ص:4، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں