فرانس میں کمپنی ہےجو فر نیچر سیل کرتی ہے،ہم پاکستان سےفیس بک سے ان کے سامان کی لسٹنگ کرتےہیں، فرانس کے لوگ ہم سےآن لائن خر ید تے ہیں،سودا طے ہونے کے بعد وہ ہمیں اپنا پتہ دیتے ہیں،ہم ساری ڈیٹیل کمپنی کو دے دیتے ہیں کمپنی ان کو سامان پہنچا دیتی ہے، سامان کو چیک کرنے کے بعد لوگ کمپنی کو پیسے دیتے ہیں،کمپنی ہمیں کمیشن دیتی ہے کیا یہ کام جائز ہے؟ (ہم لوگوں کو بتا دیتے ہیں کہ ہم کمیشن ایجنٹ ہیں ہمیں کمیشن کمپنی دے گی )۔
صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل مالک کی حیثیت سے نہیں ،بلکہ کمیشن ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے ،تو سائل کے لیے مذکورہ کمپنی کے لیے فرنیچر فروخت کرنے پر متعین کمیشن لینا شرعاً درست ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."
(كتاب الإجارة،ج:6،ص:63،سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102917
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن