بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کا کلب لیوز اور سینڈوچ لیوز پر ملازم کی تنخواہ میں کٹوتی کرنا


سوال

  کمپنی کے HR Manager کی حیثیت سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :

(1) دودن ، تین دن یا چار دن تاخیر سے آنے کی صورت میں ایک یوم مکمل یا نصف یوم کی تنخواہ میں سے کٹوتی کرنا۔

(2)   ہمارے ادارے میں ہفتہ اور اتوار کے دن تعطیل ہوتی ہے، اگر کوئی ملازم جمعہ یا پیر میں سے کوئی ایک دن ناغہ کرلے تو تین دن کی چھٹی شمارکی جاتی ہے(جمعہ ،ہفتہ اور اتوار یا ہفتہ ، اتوار اور پیر) جس  کو  HR کی اصطلاح میں “Club Leaves” کہا جاتاہے۔

(3)  اگرکوئی ملازم جمعہ اور پیر چھٹی کرلے تو چار دن کی ناغہ شمارہوتی ہے، جس  کو  HR کی اصطلاح میں “Sandwich Leaves” کہا جاتاہے۔

(4)  اسی طرح سرکاری چھٹیاں ہوں یا عیدین کی چھٹیاں ہوں اور کوئی ملازم ایک چھٹی پہلے یا بعد میں کرلے تو ساری ناغہ شمارکی جاتی ہیں ۔

نوٹ: مذکورہ تمام صورتحال میں بعض اوقات ان چھٹیوں کو ملازمین کو فراہم کردہ استحقاقی تعطیلات سے منہا کیاجاتاہے اور بعض اوقات مشاہرہ سے کٹوتی کی جاتی ہے، حالات اورافرادکے اعتبارسے یہ تبدیلی کمپنی کی صوابدید پر ہوتی ہے۔

آپ مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ ایسا حل تجویز فرمادیں جو کمپنی اور ملازمین کے لئے قابلِ عمل بھی ہو ،تاخیراورچھٹیوں کی صورت میں ملازمین کی سرزنش ہوسکےاورحقوق العبادکے اتلاف کی وعیدسے عہدہ برآں بھی ہوسکیں۔

جواب

(1) کمپنی کا کسی ملازم کی تین دن تاخیر کرنے پر ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی کرنا:

اس کا  حکم یہ ہے کہ یہ ضابطہ شرعاً درست نہیں ہے، تین دن تاخیر سے آنے پر ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تو وہ تنخواہ کا مستحق ہے ،البتہ تنخواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ  ملازم کی ماہانہ تنخواہ کو  اس کی ملازمت کے مکمل وقت میں تقسیم کردیا جائے ، پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو  اس کی تنخواہ  میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کی جاسکتی ہے۔

(2،3،4) کمپنی کا ایک  ناغہ   کو تین چھٹی  نیز سرکاری و عیدین  سے ماقبل و مابعد ایک ناغہ   کو تمام ایام  شمار کرنا:

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ضابطہ شرعاً  ناجائز ہے،  نیز یہ معاملہ انتظامی نوعیت کا ہے، جیسا کہ تمہید میں ذکر ہوا کہ اجیر خاص ملازمت کے وقت میں حاضر ہونے سے تنخواہ کا مستحق ہوتا ہے، اگر تاخیر سے آئے  تو جس قدر تاخیر سے آئے اس قدر وہ تنخواہ کا حق دار نہیں ہوتا اور اسی  ترتیب سے تنخواہ میں کٹوتی ہوگی۔۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الإفلاس والانظار، الفصل الثانی، ج:1، ص:253، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

     فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل،فتاوى النوازل۔۔۔

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(کتاب الاجارۃ، ‌‌باب ضمان الأجير، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، ج:6، ص:70، ط:سعید)

مجلۃ الأحکام العدلیہ میں ہے:

 "لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(مادۃ:97، ص:27، ط:نور محمد كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌والثاني) ‌وهو ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف."

 (‌‌كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، ج:6، ص:69، ط:سعید)

درر الحكام میں ہے:

"المعروف ‌عرفا كالمشروط شرطا."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادة:43، ج:1، ص:52، ط:دار الجيل)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل فی التعزیر، ج:5، ص:41، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے: 

"أما ‌لو ‌شرط ‌شرطا اتبع كحضور الدرس أياما معلومة في كل جمعة فلا يستحق المعلوم إلا من باشر خصوصا إذا قال من غاب عن الدرس قطع معلومه فيجب اتباعه وتمامه في البحر."

(‌‌كتاب الوقف، مطلب اشترى بمال الوقف دارا للوقف يجوز بيعها، ج:4، ص:419، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں