بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کا اپنے ملازمین کو استعمال کے لیے دیے ہوئے Tablet میں نقصان کی صورت میں ملازم کو ضامن ٹھہرانا


سوال

کمپنی میں ملازمین کو کمپنی کے سافٹ وئیر  چلانے کے لئے Tablet Device دی جاتی ہے جس میں وہ اپنے کاموں کو رپورٹ کرتے ہیں۔ Tablet دیتے ہوئے ان سے طے کیا جاتا ہے کہ کسی بھی نقصان (بشمول چوری، ڈکیتی، خرابی،  ٹوٹ پھوٹ وغیرہ) کی صورت میں ان سے اس Tablet کی رقم وصول کی جائے گی۔ یہ رقم کتنی ہوگی اس کے لئے ایک چارٹ مدت استعمال کی بنیاد پر بنایا گیا ہے اور یہ تمام ملازمین کوفراہم کیا جاتا ہے۔   اگر کوئی Tablet خراب ہو جاتا ہے تو ہمارے IT Department کے لوگ چیک کر کے بتاتے ہیں یہ کہ یہ خرابی ملازم کی غفلت کی وجہ سے ہے یا کوئی تکنیکی خرابی ہے، اگر ملازم کی لاپر واہی یا غفلت پائی جاتی ہے تو مدت کے لحاظ سے اس کی رقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹ لی جاتی ہے۔

ٹوٹ پھوٹ ، چوری یا ڈکیتی کسی بھی وجہ سے ہو، اس صورت میں ملازم کی تنخواہ سے طے شدہ چارٹ کے مطابق کٹوتی کر لی جاتی ہے۔

اگر Tablet تین سال تک ملازم کے استعمال میں رہتا ہے اسے ملازم کمپنی سے طے شدہ رعایتی قیمت  پر خرید سکتا ہے۔

یہ پالیسی اس لئے بنائی گئی ہے کیونکہ مشاہدہ ہے کہ اگر ملازمین کو ذاتی نقصان کا اندیشہ نہ ہوتو وہ لا پرواہی برتتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کمپنی کی مذکورہ پالیسی شرعاً درست ہے؟ اگر درست نہیں تو متبادل سے مطلع فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا اپنے ملازمین کو اپنے مفوضہ امور کی انجام دہی کے لیے Tablet فراہم کرنا شرعاً ”عاریت“ کہلاتا ہے،اور عاریت کا حکم یہ ہے کہ جس شخص کو دیا جائے اس پر اس چیز کی حفاظت ضروری ہے، اگر وہ چیز اس شخص کی غفلت اور سستی کی وجہ سے ہلاک ہوجائے یا اس میں نقصان پیدا ہوجائے تو وہ شخص اس نقصان کا ضامن ہوتاہے، لیکن اگر اتفاقی طور پر بلاتعدی(اس کی غلطی کے بغیر) نقصان ہوجائے تو پھر وہ شخص ضامن نہیں ہوتا۔

لہذا کمپنی کا ملازمین کو Tablet دے کر یہ پالیسی بنانا کہ کسی بھی نقصان یا خرابی کی صورت میں ماہرین چیک کرکے بتائیں گے کہ خرابی کی اصل وجہ کیا ہے، اگر وجہ ملازم کی غفلت ہے تو اس کا ضمان ملازم پر آئے گا ورنہ نہیں، تو یہ درست ہے۔ رہی بات ٹوٹ پھوٹ اور چوری  کی تو اس میں کمپنی کا ہر حال میں ملازم کو ضامن بنانا درست نہیں ہے، بلکہ اگر ملازم کی مکمل حفاظت کے باوجود Tablet چوری ہوگیا تو اس کا ضمان  ملازم پر نہیں آئے گا، کمپنی خود ضامن ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان حال المستعار: فحاله أنه أمانة في يد المستعير في حال الاستعمال بالإجماع، فأما في غير حال الاستعمال فكذلك عندنا، ... وأما بيان ما يوجب تغير حالها فالذي يغير حال المستعار من الأمانة إلى الضمان، ما هو المغير حال الوديعة، وهو الإتلاف حقيقة أو معنى بالمنع بعد الطلب أو بعد انقضاء المدة، وبترك الحفظ، وبالخلاف، حتى لو حبس العارية بعد انقضاء المدة أو بعد الطلب قبل انقضاء المدة يضمن؛ لأنه واجب الرد في هاتين الحالتين، لقوله عليه الصلاة والسلام: «العارية مؤداة» وقوله عليه الصلاة والسلام: «على اليد ما أخذت حتى ترده."

(كتاب العارية، ج:6، ص:216-218، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا تضمن بالهلاك من غير تعد) وشرط الضمان باطل كشرط عدمه في الرهن خلافا للجوهرة.

قوله بالهلاك) هذا إذا كانت مطلقة فلو مقيدة كأن يعيره يوما فلو لم يردها بعد مضيه ضمن إذا هلكت كما في شرح المجمع وهو المختار كما في العمادية اهـ قال في الشرنبلالية: سواء استعملها بعد الوقت أو لا، وذكر صاحب المحيط وشيخ الإسلام: إنما يضمن إذا انتفع بعد مضي الوقت؛ لأنه حينئذ يصير غاصبا أبو السعود."

(كتاب العارية، ج:5، ص:679، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606102040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں