ایک ضرورت کے تحت مجھے پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے، میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں وہ آسان اقساط پر لون دے رہی ہے، مگر آٹھ پرسنٹ مارک اَپ دینا ہوگا، کیا یہ مارک اَپ اصل میں سود کہلائے گا؟
واضح رہے کہ قرض کا ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض دیا جائے اتنا ہی واپس لیا جائے، اس پر کسی قسم کا مشروط نفع لینایا دینا سود ہے، قرض دے کر اس پر اضافی رقم لینا صریح سود ہے، اور سود کا لینا، دینا اور اس میں کسی قسم کی معاونت کرنا حرام اور ناجائز ہے، سودی لین دین کرنے والوں سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا قسطوں پر قرض دے کر واپسی میں آٹھ فیصد اضافی رقم لینا سود ہے، اور ایسا قرض لینا جائز نہیں ہے۔
حدیثِ مبارک میں ہے:
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»".(الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار إحیاء التراث ، بیروت. مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص: 243، قدیمی)
الجامع الصغیر میں ہے:
"كل قرض جر منفعةً فهو ربا".(الجامع الصغیر للسیوطی، ص:395، برقم :9728، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144111201718
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن