بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے وعدے کی ادائیگی میں تاخیر کرنے پر نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا


سوال

144408100620 فتویٰ نمبر میں آپ نے جو جواب عنا یت فرمایا،اس سوال میں ایک شق کا اضافہ مطلوب ہے،اس شق کے مطابق جواب عنایت فرمائیں،وہ شق یہ ہے کہ کمپنی نے ایک سال میں ایک کروڑ کی خریداری پرپندرہ فیصد، ڈسکاؤنٹ کا وعدہ صرف میرے ساتھ نہیں کیا تھا،بلکہ دوسرے کسٹمرز کے ساتھ بھی یہی معاہدہ تھا،جب کہ کمپنی نے ان کو زیادہ سے زیادہ پچاس لاکھ کی خریداری پر ہی پندرہ فیصد کا ڈسکاؤنٹ ہاتھوں،ہاتھ دیااور مجھے پورے ایک کروڑکی خریداری پر بھی بہت تنگ کرنے کے بعد ڈسکاؤنٹ دیا،اور میں نے چوں کہ زیادہ خریداری کرنے کے لیے اپنے کسٹمرز کو زیادہ(چودہ،پندرہ فیصد) ڈسکاؤنٹ پر سامان دینا شروع کردیا تھا،حالاں کہ میں عام طور پر سات،آٹھ فیصد پر سامان دیتا تھا،اس لیے مجھے تقریباً دس لاکھ روپے کا نقصان کمپنی نے پہنچایا،اب اس وضاحت کی روشنی میں اس کا شرعی حل عنایت فرمائیں۔

جواب

مذکورہ شق کا اضافہ کرلینے کے بعد بھی سائل کو کمپنی سے اپنے نقصان کے رجوع کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا،کیوں کہ سائل کا اپنے کسٹمرز کو چودہ،پندرہ فیصد ڈسکاؤنٹ دینےکی وجہ سے جو نقصان ہواہے تو سوال میں مذکورہ بیان کے مطابق سائل،ایک سال میں،ایک کروڑ کی خریداری کرنے پر  مشروط ڈسکاؤنٹ کو حاصل کرنے کےلیے،چودہ،پندرہ فیصد ڈسکاؤنٹ دینے پر آمادہ ہوا تھا،کمپنی کی طرف سےچودہ،پندرہ فیصد ڈسکاؤنٹ پر کوئی دباؤ یا اس کی طرف سے ایسی کوئی شرط نہیں تھی،اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ کمپنی نے جس ڈسکاؤنٹ کا وعدہ کیا تھا وہ سائل کو دیا نہ ہو،بلکہ خود سائل کا بیان ہے کہ ڈسکاؤنٹ مجھے ملا ہے لیکن دیر سے ملا،تو اب اس وجہ سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی کمپنی پابند نہیں ہے۔

البتہ سوال میں مذکور معاہدہ کے بعد بھی، اگر کمپنی نے دوسرے کسٹمرکے ساتھ،کم خریداری پر بھی زیادہ ڈسکاؤنٹ کا معاملہ کیا ہے،اور سائل کو اس رعایت سے محروم رکھا،تویہ کمپنی کی طرف سے سائل کے ساتھ امتیازی سلوک تھا،جو کہ غیر اخلاقی حرکت ہے،نیز سائل کی طرف سے ہدف پورا کرنے کے باوجود بھی،کمیشن دینے میں ٹال،مٹول کرنا درست نہ تھا،اور کمپنی کو چاہیے تھا کہ اپنےاسی ضابطہ کو دیگر کسٹمرز کے ساتھ بھی یکساں نظام کی بنیاد پر جاری رکھتی،تاہم اس بناء پر ان پر کوئی مالی ضمان نہیں آتا۔

"ألقرآن الكريم"میں ہے :

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ﴾

(سورۃ المائدۃ،الآیة :1، الجزء:6)

"صحيح البخاري"میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق ثلاث: ‌إذا ‌حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:منافق کی تین عادات ہیں :جب بات کرے تو جھوٹ بولے ،جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے او ر جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو امانت میں خیانت کرے ۔

(بخاری شریف ،حدیث نمبر:33 ج:1)

"مسندأحمد"میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من خرج من الطاعة، وفارق الجماعة، فمات، فميتةجاهلية، ومن قاتل تحت راية عمية، يغضب لعصبته، ويقاتل لعصبته وينصر عصبته  فقتل، فقتلة جاهلية، ومن خرج على أمتي، يضرب برها وفاجرها، لا ينحاش لمؤمنها، ‌ولا ‌يفي ‌لذي ‌عهدها، فليس مني."

(ص:326،ج:13،مسند أبي هريرة رضي الله عنه،ط:مؤسسة الرسالة)

وفیہ ایضاً:

"عن أنس بن مالك قال: ما خطبنا نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين ‌لمن ‌لا ‌عهد ‌له."

(ص:376،ج:19،مسند أنس بن مالك رضي الله عنه،ط:مؤسسة الرسالة)

"سنن ابن ماجة"میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر، قال: أقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " يا معشر المهاجرين خمس إذا ابتليتم بهن...ولم ينقضوا ‌عهد ‌الله، ‌وعهد ‌رسوله، إلا سلط الله عليهم عدوا من غيرهم، فأخذوا بعض ما في أيديهم."

(ص:1332،ج:2،کتاب الفتن،باب العقوبات،ط:دار إحياء الكتب العربية)

"رد المحتار"میں ہے:

"‌لأن ‌المواعيد قد تكون لازمة لحاجة الناس، وهو الصحيح كما في الكافي والخانية.قوله: ‌لأن ‌المواعيد قد تكون لازمة: قال في البزازية في أول كتاب الكفالة إذ كفل معلقا بأن قال: إن لم يؤد فلان فأنا أدفعه إليك ونحوه يكون كفالة لما علم أن المواعيد باكتساء صور التعليق تكون لازمة فإن قوله أنا أحج لا يلزم به شيء ولو علق وقال إن دخلت الدار فأنا أحج يلزم الحج."

(كتاب البيوع ،مطلب في بيع الوفاء،ص:277،ج:5 ،ط:سعيد)

"رد المحتار" میں ہے:

"(ومن حفر بالوعة في طريق بأمر السلطان أو في ملكه أو وضع خشبة فيها) أي الطريق (أو قنطرة بلا إذن الإمام) وكذا كل ما فعل في طريق العامة (فتعمد رجل المرور عليها لم يضمن) لأن ‌الإضافة ‌للمباشر أولى من المتسبب."

(كتاب الديات،‌‌باب ما يحدثه الرجل في الطريق وغيره،ص:597،ج:6،ط:سعيد)

"ألأشباه والنظائر"میں ہے:

" إذا اجتمع ‌المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى ‌المباشر."

(ص:135 ط:دار الكتب العلمية،بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409101634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں