بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ملازم کا کمیشن لینا


سوال

زید نے بکر کو مچھلی خریدنے کے لیے ملازم رکھا،بکر کا کام مچھلی مارکیٹ سے خرید کر زید کی کمپنی کو بھیجنا ہے، بکر کی تنخواہ متعین ہے، اب کیا بکر جس سے مچھلی خریدتا ہے، اس سے کمیشن لے سکتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں بکر چوں کہ زید کی کمپنی کا ملازم  ہے اور کمپنی سے اس کی تنخواہ متعین ہے ؛ لہٰذابکر   جب کمپنی  کے لیے مچھلی خر یدتا ہے تو اس کے لیے مچھلی بیچنے والے سے کمیشن لینا درست نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے ۔

"تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام،   وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجًا ينسج له ثيابا في كل سنة." 

( کتاب الاجارۃ باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد 6 / 63 / ط : دار الفکر بیروت )

و فیہ ایضا

وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية  قوله (فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له ۔

( کتاب البیوع جلد 4 / 560 / ط : دار الفکر بیروت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں