بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کا ملازمین سے بوقتِ تقرری کسی بھی قسم کے فنڈز نہ دینے کا معاہدہ کرنا


سوال

1۔ایک کمپنی اپنے ملازمین کو اپوائٹمنٹ (تقرری) کے وقت یہ کہہ دیتی ہے کہ کمپنی ملازم کو کسی بھی قسم کے فنڈز مثلًا گریجویٹی فنڈ، جی پی فنڈ وغیرہ نہیں دے گی، یہ بات کپمنی ہر ملازم سے کرتی ہے، کیاکمپنی کے لیے ملازمین سے اس طرح کا معاہدہ کرنا جائز ہے؟ عمومًا ملازمین اس  بات پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں، واضح رہے کہ یہ بات شروع ہی میں تقرری کرتے  وقت ملازمين کو کہی جاتی ہے، جب کہ قانونًا ملازمین کو کمپنی چھوڑتے وقت (ریٹائر منٹ پر) گریجویٹی فنڈ دینا لازم ہوتا ہے، گویا کہ ملازمین کی طرف سے گریجویٹی فنڈ نہ لینے پر  رضامندی اس وقت ہوتی ہے جب کہ یہ فنڈ اُن کے حق میں ثابت بھی نہیں ہوتا، سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملازم جو کہ کمپنی سے شروع میں تقرری کے وقت تمام قسم کے فنڈز (جو ریٹائر منٹ پر کمپنی کے ذمہ لازم ہوتے ہیں) نہ لینے کی رضامندی کا اظہار کردےتو کیاایسے شخص کے لیے ریٹائر منٹ پر کمپنی سے گریجویٹی وغیرہ کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟ واضح رہے کہ اگر چہ اس ملازم نے فنڈ نہ لینے  کا کمپنی سے معاہدہ کر رکھا ہےلیکن اگر یہ شخص ریٹائر منٹ پر کمپنی کے خلاف کورٹ (عدالت) میں چلا جائے تو عدالت اس کمپنی کو گریجویٹی فنڈز دینے  کاحکم کرے گی۔

2۔ دوسراسوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت کے مطابق بندہ نے تقرری کے وقت کمپنی سے ریٹائر منٹ پر فنڈ نہ لینے کا وعدہ کیا تھا،  2014ء میں پہلے مالک کا انتقال ہو گیا، کمپنی وراثت میں دوسرے شخص کے پاس آگئی۔ 2022 ءمیں بند ہ ریٹائر ہوا تو دوسرے مالک نے 2014 ءکے بعد کے سالوں کی گریجویٹی فنڈ دینے پر رضامندی ظاہر کی جبکہ اس سے پہلے تقریباً20 سال کی گریجویٹی دینے سے انکار کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ  بندہ نے پہلے مالک سے گریجویٹی نہ لینے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا اس وقت میرا 2014 ءسے پہلے والے سالوں کی گریجویٹی کا مطالبہ کر نادرست ہے ؟ نیز 2014 ءکے بعد کی گریجویٹی لینا میرے لیے درست اور جائز ہے ؟ کیا تقرری کے وقت کیے گئے وعدہ کی وجہ سے یہ اماؤنٹ میرے لیے لینا مکر وہ  یاحرام تو نہیں ہو گی ؟ نیز  یہ بھی واضح کیا جاۓ کہ شرعًا1995ء سے 2014ء  تک کی گریجویٹی کس کے ذمے واجب ہو گی پہلے مالک کے یادوسرے مالک کے؟

جواب

1۔اگر کمپنی نے ملازمین کی تنخواہ سے کوئی کٹوتی نہیں کی ہے، بلکہ اُن کو پوری پوری تنخواہ دی ہیں، تو ایسی صورت میں اگر کمپنی ملازمین کو ریٹائر منٹ کے موقع پر کوئی فنڈ نہیں دیتی تو ملازمین کو کمپنی سے کسی قسم کے مطالبہ کاحق نہیں ہے، کیوں كه ایسی صورت میں مذکورہ فنڈز کی حیثیت کمپنی کی طرف سے محض تبرع، عطیہ اور انعام کی ہوگی اور  تبرع اورعطیہ / انعام دینے پر کوئی کسی کو مجبور نہیں کرسکتا، اگر کمپنی کسی کو اپنی مرضی سے دیتی ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ کسی کومطالبہ کرنے کاحق نہیں ہے، خواہ بوقتِ تقرری یہ معاہدہ ہوا ہو کہ کمپنی کسی بھی قسم کافنڈ نہیں دے گی یا نہیں ہوا ہو۔

2۔کمپنی کا دوسرا مالک جو 2014ء کے بعد کمپنی کامالک بنا ہے اگر وہ آپ کو اپنی خوشی سے 2014ء کے بعد کے سالوں کی گریجویٹی دیتا ہے تویہ اس کی طرف سے عطیہ اور انعام ہے، لہٰذا  آپ کے لیے اسے لینا جائز ہے،البتہ  اگر وہ آپ کو2014ء سے پہلے کے سالوں کی گریجویٹی نہیں دیتا تو آپ  کو اس سے مطالبہ کرنے کاحق نہیں ہے، نیز سابقہ مالک نے اگر آپ کی تنخواہ سے کوئی کٹوتی نہیں کی ہے، بلکہ آپ کو آپ کی پوری پوری تنخواہ دی ہے تو ایسی صورت میں اُن کے ذمہ بھی آپ کے لیے کسی قسم کی گریجویٹی دینا لازم نہیں تھی۔

شرح المجلۃ  لسلیم رستم  باز میں ہے:

"الهدية هي المال الذي يعطى لأحد أو يرسل إليه إكراما له."

(الكتاب السابع في الهبة، المادة: 834، 366/1، ط: رشيدية)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"لأنه ‌لا ‌جبر ‌على التبرع."

(الكتاب الخامس في الرهن، الباالأول في المسائل الدائرة لعقد الرهن، 83/2، ط: دار الجيل)

الہدایہ فی شرح البدایہ میں ہے:

"ولا ‌جبر ‌على ‌التبرعات."

(كتاب الرهن، باب مايجوز ارتهانه والارتهان به ومالايجوز،424/4، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں