بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیٹی جمع کرنے والے شخص کا ہر قسط میں سے کچھ رقم کم دینا


سوال

جس شخص کے پاس کمیٹی جمع کی جاتی ہے، وہ ہر قسط میں 500 روپے قسط والے کو کم دیتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص خود کمیٹی میں پیسے ڈال کر شریک ہوتا ہے یا نہیں؟ دونوں صورتوں کا حکم مختلف ہے:

الف۔ اگر مذکورہ شخص خود کمیٹی میں پیسے ڈال کر شریک نہیں ہوتا، اور اس کو  تمام شرکاء سے بی سی جمع کرنے میں باقاعدہ عمل یعنی محنت کرنی پڑتی ہے، یعنی اسے خود گھر گھر جاکر رقم جمع کرنی ہوتی ہے، تو اس صورت میں وہ تمام شرکائے  بی سی کی رضامندی سے پہلے سے متعین کرکے اپنی اس محنت کی طے شدہ اجرت وصول کرسکتاہے،  تاہم اگر تمام شرکاء خود پیسے  لاکر اس شخص کے پاس جمع کراتے ہوں تو اس صورت میں اس کا محنتانہ کے نام سے کسی قسم کی اجرت وصول کرنا اور رقم کم دینا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

ب۔ اگر مذکورہ شخص خود بھی پیسے ڈال کر کمیٹی میں شریک ہوتا ہے، تو اس صورت میں اس کے لیے محنتانہ یا اجرت وصول کرنا شرعاً جائز نہ ہوگا۔

ہدایہ میں ہے:

"الإجارة: عقد على المنافع بعوض."

(کتاب الإجارات، ج: 3، ص: 230، ط: دار إحياء التراث العربي)

دررالحكام شرح مجلة الأحكام ميں ہے:

"الأجير المشترك لايستحق الأجرة إلا بالعمل. أي لايستحق الأجرة إلا بعمل ما استؤجر لعمله؛ لأنّ الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لايسلم له العوض و المعقود عليه هو العمل، أو أثره على ما بينا؛ فلا بدّ من العمل. فمتى، أوفى العامل العمل استحقت الأجرة."

(الباب الأول في بيان الضوابط العمومية للإجارة، المادة 424 الأجير المشترك، ج: 1، ص: 457  ط: دار جيل)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا...  (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن) فإنه لا أجر له لنفعه بملكه."

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج: 6 ص: 57، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100659

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں