بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن لینے کا حکم


سوال

کمیشن لینا کیسا ہے؟

جواب

مارکیٹ  میں جو  افراد   فری  لانس مختلف افراد  یا کمپنیوں کا مال کسی اور کو  دلواتے یا خریدواتے  ہیں اور  درمیان میں اپنامقررہ یا معروف کمیشن وصول کرتے ہیں تو  ان کا یہ کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز ہوتا ہے۔ 

البتہ وہ افراد جو کسی کمپنی میں ملازم ہوں اور کمپنی کا مال بیچنے یا کمپنی کے لیے  مال خریدنے پر مامور ہوں اور  اس کام کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں، ان کے لیے کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں، نیز وہ شخص جس کو کسی نے مال خریدنے کے حوالہ سے اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہو،  اس کے لیے قیمتِ خرید سے زائد کے واؤچر بنوا کر اپنے موکل (اصل خریدار) سے بطورِ  کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں۔

یہ بات بھی معلوم ہو کہ  دلالی ( بروکری) لینا شرعاً اس وقت جائز ہوتا ہے جب کہ بروکر سامان کی خریداری یا فروخت کرنے میں اپنا کردار ادا کرے،  پس جب جب وہ کردار ادا کرے اس کے لیے بروکری یا کمیشن وصول کرنا جائز ہوتا ہے، البتہ اگر کسی پارٹی سے مال ڈلوانے کے بعد وہ دونوں پارٹیاں  ڈائریکٹ ہوکر بعد میں کوئی سودا کرتے ہیں، جس میں تعارف کرانے والے شخص کی کوئی سعی و کوشش نہیں ہو تو ایسی صورت میں تعارف کرانے والے شخص کوکمیشن کے مطالبہ کا شرعاً حق نہیں ہوتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200430

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں