بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن کے جواز کے لیے کمیشن کا تعین ضروری ہے


سوال

 ہم پراپرٹی ڈیلر ہیں، یہاں پر بائع اور مشتری دونوں سے ایک ایک فیصد کمیشن ڈیلر لیتا ہے، مگر کبھی کبھی صورتِ حال ایسی ہوتی ہے کہ زید کے پاس بائع ہوتا ہے اور بکر کے پاس مشتری ہوتا ہے مگر عمرو بیچ میں زید اور بکر کے درمیاں واسطہ بنتا ہے، اب بائع تو کمیشن زید کو دیتا ہے اور مشتری بکر کو، اب عمرو اپنا حصہ پلاٹ کی قیمت سے نکال لیتا ہے وہ اس طرح کہ بائع بیچتا ہے چالیس لاکھ میں تو یہ عمرو بکر کی واسطے سے اسی پلاٹ کو بیالیس لاکھ کا بیچ دیتا ہے اور مشتری کو پتا ہی نہیں چلتا، اسے وہ 42 لاکھ کا کہہ دیتے ہیں، حال آں کہ بائع تو 40 لاکھ کا ہی دیتا ہے، اس صورت میں وہ بائع اور مشتری کی ملاقات ہونے بھی نہیں دیتے، بلکہ دونوں سے دستخط الگ الگ سے لے لیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق عمرو کا بائع اور مشتری کے علم میں لائے بغیر  مذکورہ طریقے سے کمیشن  لینا جائز نہیں ہے، یہ صورت ناجائز ہے۔ یا تو کمیشن متعین کرکے وصول کرے، یا پہلے عمرو باقاعدہ طور پر وہ مکان یا دکان وغیرہ خرید کر اپنی ملکیت و قبضے میں لے، پھر اسے نفع پر خریدار یا دوسرے ایجنٹ کو بیچے تو یہ جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو قال اشتر هذه الجارية بألف درهم كان مشورة والشراء للمأمور إلا إذا زاد، على أن أعطيك لأجل شرائك درهما؛ لأن اشتراط الأجر له يدل على الإنابة. وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ."

(کتاب الوکالة، ج: 5، صفحه: 509، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں