بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن ایجنٹ/ آڑھتی کا زمین دار یا ٹھیکے دار کو پیشگی رقم دینا تاکہ اسی کے ہاتھوں مال فروخت کروائے


سوال

میں کمیشن ایجنٹ ہوں، فروٹ مارکیٹ میں میری آڑھت کی دکان ہے، کوئی زمین دار یا ٹھیکے دار مال لے آتا ہے تو فروخت کرنے کے بعد دس فیصد کمیشن کی صورت میں لے کر بقایا رقم ادا کرتا ہوں؛ مسئلہ یہ ہے کہ زمین دار یا ٹھیکے دار کو مال لانے سے قبل بیس پچیس ہزار روپے دیتا ہوں تاکہ مجھے مال دے، اور عام دستور بھی یہی ہے کہ زمین دار یا ٹھیکے دار کو مال لانے سے پہلے اسی لالچ سے پیسے دیے جاتے ہیں،  تاکہ وہ مال بھیجے اور اس مال کی فروخت پر کمیشن لیا جاسکے، اس طریقۂ کار پر مختلف باتیں سنتے ہیں؛ کچھ لوگ سود کا کہتے ہیں اور بعضے حرام کا کہتے ہیں، اور زیادہ تر لوگ جو اس کام سے تعلق رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حلال ہے، اس مسئلہ پر رہنمائی فرمائیں۔

نوٹ: "آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں اس صورت کو جائز فرمایا ہے، مگر ہمارے مقامی علماء فرماتے ہیں کہ یہ "کلّ قرض جرّ نفعاً فھو رباً" کی قبیل سے ہونے کی وجہ سے نا جائز ہے۔ واضح رہے کہ کبھی زمیں دار یا ٹھیکے دار کو قرضہ کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس لالچ میں آڑھتی اسے آرام سے قرضہ دے دیتا ہے کہ پھر یہ اپنا مال فروخت کرنے کو  مجھے ہی دے گا، اور قرضہ کبھی تو  مال فروخت کرنے کے بعد کاٹ لیتا ہے اور کبھی  مقروض از خود (الگ سے) ادا کر دیتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر قرض دینے والا باقاعدہ یہ شرط لگاکر قرض دیتا ہو کہ بعد میں مقروض اسی کو اپنا مال فروخت کے لیے دے گا، تو   یہ درست نہیں ہے،اس لیے کہ قرض دے کر اس پر کسی بھی قسم کا بالواسطہ یا بلا واسطہ نفع اٹھانا  جائز نہیں ہے؛ لہذا اس صورت میں آڑھتی کسی زمین دار  کو  قرض دينے كے بعد اُسے اپنا مال اِسی آڑھتی کے ہاتھوں فروخت کروانے پر مجبور نہیں کرسکتا، اور نہ ہی اس شرط کے ساتھ قرض کالین دین درست ہے، البتہ اس صورت میں اگر  قرض دینے کے لیے کمیشن پر مال دینے کی شرط نہ رکھی جائے، یعنی غیر مشروط طور پر قرض   دے دیا جائے، پھر  زميں دار اپنا مال قرض دینے والے کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق  کمیشن پر فروخت کرنے کے لیے دے دے، (یعنی وہ آڑھتي اس  کا مال   بیچنے کا اتنا ہی کمیشن لے جتنا دوسرے ایجنٹ لیتے ہیں)، اور مال دینے یا نہ دینے سے قرض کی واپسی کی مدت کے گھٹنے اور بڑھنے کا  بھی کوئی تعلق نہ ہو، تو یہ جائز ہے اور  اس کی یہ آمدنی سودی نہیں ہے؛  لیکن اگر قرض کی وجہ سے  قرض دینے والا مشروط طور پر  زیادہ کمیشن لے  یا مقروض کا  مال سستا خرید لے تو یہ قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود ہوگا،  اسی طرح اگر مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہی کمیشن پر کام کرے، لیکن قرض دینے سے پہلے ان دونوں کا آپس میں آڑھت کا معاملہ نہ ہو، صرف قرض کی وجہ سے اب مال دیا جا رہا ہو، تو اس مشروط معاملے سے بھی اجتناب کیا جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

''قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف ‌إن ‌أبا ‌حنيفة - ‌رحمه ‌الله ‌تعالى - ‌كان ‌يكره ‌كل ‌قرض ‌جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانيرليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه، وإن لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به وذكر الخصاف في كتابه وقال ما أحب له ذلك.
وذكر شمس الأئمة الحلواني أنه حرام وذكر محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف أن السلف كانوا يكرهون ذلك إلا أن الخصاف لم يذكر الكراهة إنما قال لا أحب له ذلك فهو قريب من الكراهة لكنه دون الكراهة ومحمد - رحمه الله تعالى - لم ير بذلك بأسا فإنه قال في كتاب الصرف المستقرض إذا أهدى للمقرض شيئا لا بأس به من غير فصل فهذا دليل على أنه رفض قول السلف قال شيخ الإسلام خواهر زاده - رحمه الله تعالى - ما نقل عن السلف محمول على ما إذا كانت المنفعة وهي شراء المتاع بثمن غال مشروطة في الاستقراض وذلك مكروه بلا خلاف وما ذكر محمد - رحمه الله تعالى - محمول على إذا لم تكن المنفعة وهي الهدية مشروطة في القرض وذلك لا يكره بلا خلاف هذا إذا تقدم القرض على البيع.''

(الباب التاسع عشر في القرض والإستقراض والإستصناع، 3/ 203، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
مطلب أسكن المقرض في داره يجب أجر المثل.
وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع، والله - تعالى - أعلم".

(قبيل باب ضمان الأجير، 6/ 63، ط: ايچ ايم سعيد)

واضح رہے کہ مولانا یوسف لدھیانوی شہید -نوّر اللہ مرقدَہٗ- نے' آپ کے مسائل اور ان کا حل 'میں اس سوال کا جواب یہ دیا ہے:

"چوں کہ زمین دار ان کویہ رقم پیشگی  کےطور پر دیتے ہیں، یعنی ان کا مال آتا رہے گا اور اس میں سے ان کی رقم وضع ہوتی رہے گی، اس لیے یہ ٹھیک ہے، اس پر کوئی قباحت نہیں۔اس کی مثال ایسی ہوگی کہ دکان دار کے پاس کچھ روپیہ پیشگی جمع کرا دیا جائے اور پھر اس سے سودا سلف خریدتے رہیں، اور آخر میں حساب کر لیا جائے۔" (کمیشن، ج7، ص386،ط: جدید۔  ج6، ص278، ط:قدیم) 

بظاہر یہاں یہ مطلب لیا گیا ہے کہ زمین داروں کی طرف سے   آڑھتی کو قرضہ دیا جاتا ہے، اور بعد میں جب آڑھتی زمین داروں کا مال بیچ کر کمیشن نکالے تو  اپنے کمیشن میں سے وہ رقم  کٹوا لیتا ہے جو اسے قرضہ میں دی گئی تھی؛ یا یہ مطلب ہے کہ آڑھتی جو قرضہ زمین داروں کو دیتا ہے، وہ گویا اس رقم کی پیشگی ادائیگی (ایڈوانس پیمنٹ ) ہے جو وہ بعد میں زمین دار  کا مال بیچ کر اسے دینے والا  ہے، اس صورت میں زمین دار کا مال فروخت کروانے کے بعد آڑھتی اس کی آمدن (فروخت سے حاصل شدہ رقم) میں سے اپنی دی ہوئی رقم کاٹ کر بقیہ پیسے زمین دار کے حوالے کردے گا (اور کمیشن الگ ہوگا)؛ ظاہر ہے کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں اور ان میں کوئی اشکال نہیں۔

 جب کہ  ہمارا جواب اس خاص صورت سے متعلق ہے جس میں آڑھتی کی  طرف سے زمین دار کو قرضہ دینے پر نفع حاصل ہو رہا ہو، اور حضرت شہید رحمہ اللہ کا جواب صرف آڑھتی کی اپنے کمیشن میں سے قرضہ کی کٹوتی کروانے یا زمین دار کو پیشگی رقم دے کر بعد میں اس کے مال کی قیمت سے آڑھتی کے کٹوتی کر لینے کے بارے میں ہے؛ لہذا جوابوں میں فرق سے کسی قسم کا شبہ پیدا نہیں ہوتا۔   

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101426

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں