بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن ایجنٹ کے ذریعے سرکاری کاغذات بنوانے اور اس کے عوض کمیشن کے لین دین کا حکم


سوال

سرکاری دفاتر میں ایجنٹ کا پیسے لے کر ڈاکومنٹ بنوانا کیسا ہے؟ ـ کیا اس کو پیسے دینا اور اس کا پیسہ لینا جائز ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص کسی جائز کام کے لیے سرکاری  ڈاکیومنٹ (کاغذات) بنوانا چاہتا ہو اوران کاغذات کے بنانے کے لیے سرکار کی طرف سے مقرر کردہ شرائط بھی مکمل ہوں، تو ایسا شخص اگر خود سرکاری دفتر جاکر کاغذات بنوانے کے بجائے کسی کمیشن ایجنٹ سے معاہدہ کرلے کہ آپ میرے لیے یہ کاغذات بنوادو اور اس کام کے لیے جو محنت (بھاگ دوڑ) آپ کروگے اُس کے عوض میں آپ کو اتنا کمیشن (اجرت) دوں گا، تو اس طرح کا معاہدہ کرکے کاغذات بنوانا جائز ہوگا، اور معاہدے کی رو سے کاغذات بنوانے والے شخص کے لیے  کمیشن ایجنٹ کو اجرت (کمیشن) دینا اور کمیشن ایجنٹ کا اس اجرت کو لینا جائز ہوگا۔

البتہ اگر مطلوبہ کاغذات کے لیے سرکار کی طرف سے مقرر کردہ شرائط مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کسی کمیشن ایجنٹ سے ایسا معاہدہ کیا جائے تاکہ وہ آگے ان پیسوں سے سرکاری افسران کو رشوت دے کر کاغذات بنوادے تو اس طرح کاغذات بنوانا بھی ناجائز ہوگا اور کمیشن کے نام سے رشوت کا لین دین بھی ناجائز ہوگا۔

اگر سرکاری کاغذات کی مطلوبہ شرائط مکمل ہونے کے باوجود سرکاری افسران لوگوں کو کاغذات بناکر دینے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہوں تاکہ لوگ کمیشن ایجنٹ کے واسطے سے کاغذات بنوائیں تو ایسی صورت میں  اگر جائز سفارش اور دیگر جائز ذرائع استعمال کرنے کے باوجود لوگوں کے لیے کاغذات بنوانا ممکن نہ ہو تو اپنے ثابت شدہ حق کی وصولی کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہوگی، تاہم ایسی مجبوری کی صورت میں بھی اسے برا سمجھتے ہوئے استغفار کرنا چاہیے، البتہ ایسے کمیشن ایجنٹ جو سرکاری افسران سے گٹھ جوڑ کر کے لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں سے کمیشن کے نام پر لی ہوئی رشوت سرکاری افسران تک پہنچاکر اس میں سے اپنا حصہ رکھتے ہیں ان کے لیے یہ کمیشن لینا جائز نہیں ہے، اسی طرح سرکاری محکموں کے ملازمین جن کو سرکار نے تنخواہ کے عوض عوام کے کام کرنے اور ان کو سہولیات فراہم کرنے پر مامور کیا ہے، ان پر اسی تنخواہ عوض عوام کا کام کرکے دینا لازم ہے ، لہٰذا ان کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں والے کام کر کے دینے کے عوض اجرت یا کمیشن کے نام سے عوام سے پیسے بٹورنا ناجائز اور حرام ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة".

( كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،مطلب في أجرة الدلال، 6/ 63، ط: سعيد)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»): أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".

 (کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵ ،ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ".

(6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں