کچھ آدمیوں نے مل کر کمیٹی ڈالی، کمیٹی کی مدت ابھی تک پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک آدمی نے درمیان سے کمیٹی کے پیسے جمع کرنا چھوڑ دئیے ، اب جو کمیٹی کے سربراہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کمیٹی کے درمیان سے چلے گئے ہو، اس وجہ سے آپ کے جمع کیے ہوئے پیسے آپ کو واپس نہیں ملیں گے ، سوال یہ ہے کہ کیا جو شخص کمیٹی سے مدت پوری ہونے سے پہلے نکل چکا تھا، اس کے لیے اپنے جمع کیے ہوئے پیسوں کا مطالبہ درست ہے یا نہیں؟ کمیٹی کے درمیان سے جانے والے ساتھی یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے سب سے آخر میں میرے پیسے واپس کر دو۔
واضح رہے کہ بی سی اور کمیٹی کی حیثیت قرض کی ہے، گویا کمیٹی کے ممبران میں سے ہر ممبر ایک معین رقم قرض دیتا ہے اور اپنا نمبر آنے پر قرض دی ہوئی رقم وصول کر لیتا ہے، اور قرض کے لین دین میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص قرض دے تو اُس قرض دینے والے کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت اپنی قرض دی ہوئی رقم کا مطالبہ کر لے ، اگرچہ قرض کی واپسی کے لیے ایک مدت متعین کر لی ہو ؛ لہذا کمیٹی کے ممبران کو بھی کسی بھی وقت اپنی دی ہوئی رقم واپس لینے کا حق حاصل ہو تا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے کمیٹی کی مدّت مکمل کیے بغیر پیسے جمع کرانا چھوڑ دئیے ہیں تو اس کو مزید رقم دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ قرض دینا لازم نہیں ہے، اور جتنی رقم اس نے جمع کرائی ہے وہ اس کا حق ہے، اس کو فوری واپس کرنا ضروری ہے، البتہ اگر باہمی رضامندی سے وہ اپنی جمع کرائی ہوئی آخر میں وصول کرتا ہے تو یہ جائز ہے، جب کہ کمیٹی کے سربراہ کا اس کو رقم واپس کرنے سے منع کرنا ناجائز ہے، یہ کسی کا مال ناحق غصب کرنا ہے جو حرام ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولزم تأجيل كل دين) إن قبل المديون (إلا) ... (القرض) فلا يلزم تأجيله.
(قوله: فلا يلزم تأجيله) أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع عنه، لكن قال في الهداية: فإن تأجيله لا يصح؛ لأنه إعارة وصلة في الابتداء حتى يصح بلفظة الإعارة ولا يملكه من لا يملك التبرع كالوصي والصبي، ومعاوضة في الانتهاء فعلى اعتبار الابتداء لا يلزم التأجيل فيه كما في الإعارة إذ لا جبر في التبرع، وعلى اعتبار الانتهاء لا يصح؛ لأنه يصير بيع الدراهم بالدراهم نسيئة وهو ربا اهـ.
ومقتضاه أن قوله لا يصح على حقيقته؛ لأنه إذا وجد فيه مقتضى عدم اللزوم ومقتضى عدم الصحة، وكان الأول لا ينافي الثاني؛ لأن ما لا يصح لا يلزم وجب اعتبار عدم الصحة، ولهذا علل في الفتح لعدم الصحة أيضا بقوله: ولأنه لو لزم كان التبرع ملزما على المتبرع، ثم للمثل المردود حكم العين كأنه رد العين وإلا كان تمليك دراهم بدراهم بلا قبض في المجلس والتأجيل في الأعيان لا يصح اهـ ملخصا، ويؤيده ما في النهر عن القنية التأجيل في القرض باطل".
(كتاب البيوع،باب المرابحة والتولية، فصل في التصرف في المبيع والثمن... وتأجيل الديون، 5/ 158، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610102170
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن