بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیٹی میں بولی لگا کر کم وصول کرنا


سوال

کیا بولی والی کمیٹی جائز ہے؟ (اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً دس لوگوں نے ایک ایک لاکھ کمیٹی ڈالی دس سال کیلئے، اب پہلی دفعہ تو دس لاکھ پورے وہی آدمی اٹھائے گاجو کمیٹی کو سنبھالنے کا ذمہ دار ہے، جبکہ اس نے  خود بھی اس میں ایک لاکھ شامل کئے ہیں ۔ اس کے بعد کے سالوں میں ایسے ہوگا کہ کمیٹی نکلنے کے وقت تمام شرکاء جمع ہوں گے، اور بولیاں لگیں گی، کوئی کہے گا کہ   یہ کمیٹی اس دفعہ مجھے دے دو،میں یہ کمیٹی 9 لاکھ 70 ہزار میں   وصول کرنے کیلئے تیار ہوں (دس لاکھ کے بجائے) اور باقی  تیس ہزار جو بچیں گے وہ سب شرکاء آپس میں تقسیم کرلیں، یہ ان کا نفع ہوگیا،  کوئی دوسرا بولے گا کہ میں 9 لاکھ 50 ہزار میں لینے کو تیار ہوں، اس طرح جس کی سب سے کم پیسوں کی بولی ہوگی، کمیٹی اس کو دے دی جائے گی، اور (دس لاکھ میں سے) باقی ماندہ رقم باقی سب شرکاء میں تقسیم ہوجائے گی۔)

کیا یہ طریقہ درست ہے؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں نفع کم زیادہ ہوتا ہے اس لئے سود نہیں۔

جواب

کمیٹی (بی سی)کامروجہ طریقہ قرض کے لین دین کامعاملہ ہے جس کا مقصد باہمی تعاون وتناصرہے ۔اور اس کے جواز کی من جملہ شرائط  میں سے یہ بھی ہے کہ جتنے پیسے جمع کئے ہوں اتنے ہی  وصول کئے جائیں۔ بولی لگا کر کمیٹی کم یا زیادہ پیسوں میں فروخت کرنا جائزنہیں، بلکہ یہ سود ہے۔ اس لئے کہ قرض سے اوپر(نفع کم یا زیادہ ہو، حتی کہ)  ایک روپیہ  بھی وصول کرنا جائز نہیں۔ اس لئے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ  " اس میں نفع کم زیادہ ہوتا ہے اس لئے سود نہیں"  درست نہیں۔

نیز تمام شرکاء  کی باہمی رضامندی سے اگر ابتداءً یہ طے ہوجائے کہ پہلی کمیٹی منتظم لے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کل قرض جر نفعاً فهو  حرام) أی اذا کان مشروطاً."

(ج:۵،ص:۱۶۶،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں