بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیٹی کی باری کے بدلہ اضافہ وصول کرنا


سوال

 بڑے  بھائی نے ایک جگہ کمیٹی ڈالی ہوئی ہے 10 ہزار روپے مہینہ، 30 افراد ہیں،  تین لاکھ روپے  نکلیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھائی کی پرچی نہیں نکلی تو  اب جس لڑکے کی نکلی ہے پرچی تو بھائی نے ان سے کہا کہ مجھ سے 15 یا 20 ہزار لے لینا اپنی کمیٹی مجھے دے دو،  لیکن اس کے بارے میں علمائے کرام سے پوچھا تو  انہوں نے منع کیا اس طرح کرنے سے تو اب اس لڑکے نے کہا کہ آپ پیسے لے لو کمیٹی کے  مجھ سے،  پھر آپ کا جو دل کرے مجھے دے دینا،  لیکن صورت اب بھی ویسی ہی ہے کہ اگر بھائی اس کو  پیسے بالکل بھی نہیں دے یا کم دے تو وہ ناراض ہوگا۔  رہنمائی فرما دیجیے کہ اس طرح سے معاملہ کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے بڑے بھائی کا مذکورہ شخص سے یوں معاملہ کرنا کہ سائل کا بڑا بھائی 3  لاکھ روپے لے گا اور اس کے بدلہ میں اپنی کمیٹی کے تین  لاکھ اور اپنی صواب دید  پر کوئی اضافہ  بھی  دے گا  ،یہ معاملہ شرعًا ناجائز اور حرام ہے اور یہ اضافہ شرعًا سود ہی شمار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"«وفي الأشباه كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام»

قوله: كلّ ‌قرض ‌جرّ ‌نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر، و عن الخلاصة وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به، ويأتي تمامه."

(کتاب البیوع باب المرابحہ فصل فی القرض ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں