مجھے ابوبکر نے گاڑی بیچنے کے لیے دی اور میں نے ان سے کہا کہ 60 لاکھ سے اوپر اگر میں بیچتا ہوں تو اوپر کے پیسے میرے،اس پر وہ متفق ہو گیا اور میں نے وہ گاڑی 62 لاکھ کی بیچ دی، کیا یہ دو لاکھ روپے میرے لیے جائز ہیں؟
صورت ِ مسئولہ میں سائل کی اجرت /کمیشن متعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہے ،سائل کے لیے دو لاکھ روپے لینا شرعاً جائز نہیں ہے،مکمل باسٹھ لاکھ روپے اصل مالک کو دینے ہوں گے،البتہ سائل کو اجرت مثل( اس طرح کام کرنے پر جتنی اجرت بنتی ہے) ملے گی ۔
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :
"(المادة 578) لو أعطى أحد ماله لدلال ، وقال بعه بكذا دراهم فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفضل أيضا لصاحب المال ، وليس للدلال سوى الأجرة."
(الکتاب الاول فی البیوع،الباب السادس فی بیان انواع الماجور واحکامہ،ص:107،نور محمد کارخانہ کتب)
النتف فی الفتاوی میں ہے :
"والخامس اجارة السمسار لايجوز ذلك وكذلك لو قال بع هذا الثوب بعشرة دراهم فما زاد فهو لك وان فعل فله اجر المثل."
(کتاب الاجارۃ،اجارۃ السمسار،ج:2،ص:575،دارالفرقان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100581
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن