بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کالج کو زکاۃ دینے کا حکم


سوال

 کیا کیڈٹ کالج کو زکوٰۃ دینے کی اجازت ہے جہاں بچوں کو فوجی بننے کی تربیت دی جائے گی تاکہ سرکاری ملازم بنے؟ حالاں کہ حکومت کے پاس سیاستدانوں اور فوجی ملازمین سمیت، دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے مقاصد کے لیے ٹیکسوں سے اربوں ڈالر کی رقم موجود ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ،اور دیگر صدقاتِ واجبہ کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بلا عوض مالکانہ حقوق کے ساتھ دیا جانا لازم ہے،اگر کسی ادارے کو زکاۃ  کی ادائیگی کا وکیل بنایا جائے، اور وہ بلا امتیاز،اس کو ہر طالبِ علم پر خرچ کرے،تو ایسی صورت میں زکاۃ ادا نہیں ہوتی۔

لہٰذا،صورتِ مسئولہ میں  کیڈٹ کالج کو،زکاۃ کی رقم دینے کی صرف اس صورت میں اجازت ہے،جب کہ وہ رقم یا اس سے خریدی ہوئی چیز ، زکات کے مستحق طالبِ علم کو مالک بنا کردی جائے،بصورتِ دیگر،زکاۃ ادا نہ ہوگی۔

جہاں تک سرکاری خزانے کی بات ہے،تو چوں کہ وہ سرکار کی ملکیت ہے،افراد کی نہیں،اسی وجہ سےسرکاری خزانے میں کسی خاص مد یا ادارے کے لیے رقم موجود ہونے سے،اس ادارے کے افراد کو غنی شمار نہیں کیا جاسکتا،جب تک کہ وہ رقم ان افراد کے حوالے نہ کردی جائے۔

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله  تعالى ."

(ص:170،ج:1،کتاب الزکاۃ،ألباب الأول،ط:دار الفكر،بيروت)

"رد المحتار علي الدرالمختار" میں ہے:

"و لا إلى غني يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان."

"قوله: فارغ عن حاجته: قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة."

(ص:347،ج:2،کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکاۃ والعشر،ط:ایج ایم سعید)

وفیہ ایضا:

"وبهذا التعليل يقوى ما نسب للواقعات من أن طالب العلم يجوز له أخذ الزكاة ولو غنيا إذا فرغ نفسه لإفادة العلم واستفادته لعجزه عن الكسب والحاجة داعية إلى ما لا بد منه."
" قوله: إذا فرغ نفسه: أي عن الاكتساب قال ط: المراد أنه لا تعلق له بغير ذلك فنحو البطالات المعلومة وما يجلب له النشاط من مذهبات الهموم لا ينافي التفرغ بل هو سعي في أسباب التحصيل ،... قوله: لعجزه:علة لجواز الأخذ...والأوجه تقييد بالفقير، ويكون طلب العلم مرخصا لجواز سؤاله من الزكاة وغيرها وإن كان قادرا على الكسب إذ بدونه لا يحل له السؤال كما سيأتي. ومذهب الشافعية والحنابلة أن القدرة على الاكتساب تمنع الفقر فلا يحل له الأخذ فضلا عن السؤال إلا إذا اشتغل عنه بالعلم الشرعي."

(ص:340،ج:2،کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکاۃ والعشر،ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410101647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں